سورة الأحقاف - آیت 11

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

حق کا انکار کرنے والے، اس سے عناد رکھنے والے اور اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے کفار کہتے ہیں : ﴿ لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ﴾ ” اگر یہ بہتر ہوتا تو یہ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔“ یعنی مومنین ہم پر سبقت نہ لے جاسکتے، ہم اس بھلائی کی طرف سب سے پہلے آگے بڑھنے والے اور اس کی طرف سب سے زیادہ سبقت کرنے والے ہوتے۔ ان کا یہ قول ایک لحاظ سے باطل ہے۔۔۔ کون سی دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حق کی علامت یہ ہے کہ اہل تکذیب اہل ایمان پر سبقت لے جائیں؟ کیا وہ زیادہ پاک نفس اور عقل و خرد میں زیادہ کامل ہیں؟ کیا ہدایت ان کے ہاتھ میں ہے؟ مگر یہ کلام جو ان سے صادر ہوا، جسے وہ اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اس شخص کے کلام کی مانند ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس چیز کی مذمت کرنا شروع کر دے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَـٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ ﴾ ” اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہتے ہیں کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔“ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس قرآن سے راہ نمائی حاصل نہ کی اور یوں وہ عظیم ترین نوازشات اور جلیل ترین عطیات سے محروم ہوگئے۔ اسے جھوٹ کہہ کر اس میں جرح و قدح کی، حالانکہ یہ حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔