وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور کسی نبی کے لیے کبھی ممکن نہیں کہ وہ خیانت کرے، اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کی، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
یہاں (غلول) سے مراد ہے مال غنیمت چھپانا اور اس چیز میں خیانت کرنا جس کا اسے منتظم بنایا گیا ہے۔ خیانت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے بلکہ اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ آیت کریمہ اور دیگر نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، جیسا کہ آپ کو علم ہے۔ سب سے بڑا گناہ اور بدترین عیب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو ہر عیب سے محفوظ رکھا ہے جو ان میں کسی اعتراض کا باعث بن سکتا تھا۔ اخلاق و اطوار کے لحاظ سے انہیں دنیا میں افضل ترین انسان، سب سے زیادہ پاک نفوس کے مالک اور سب سے زیادہ طیب و طاہر ہستیاں بنایا ہے اور انہیں ہر عیب سے پاک کیا ہے۔ انہیں اپنی رسالت کا محل اور اپنی حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ (الانعام:6؍124) ” اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا کون سا محل ہے اور وہ اپنی رسالت کسے عنایت فرمائے۔ “ ان میں سے کسی ایک رسول کے بارے میں بندے کا مجرد علم، تمام رسولوں کے ہر عیب سے محفوظ اور سلامت ہونے کا قطعی فیصلہ کردیتا ہے اور انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کے دشمنوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے فاسد ہونے پر کسی دلیل کی حاجت نہیں، کیونکہ ان کی نبوت کی معرفت ان تمام اعتراضات کو دفع کرنے کو مستلزم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسلوب کے ساتھ ذکر کیا جو اس فعل کے وجود کو مانع ہے چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کے لیے چنا ہے اس کے بارے میں یہ ممتنع اور محال ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے، فرمایا : ﴿وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والا قیامت کے روز اس مال کو، خواہ وہ کوئی حیوان ہے یا مال و متاع وغیرہ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا اور اس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کو اس کی خیانت کی مقدار کے مطابق اس کے گناہ کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾” اور ان پر ظلم نہیں ہوگا“ یعنی ان کی برائیوں میں اضافہ اور ان کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ میں آپ اس حسن احتراز (مفہوم مخالف سے بچاؤ کے احسن پیرائے) پر غور کیجیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا ذکر کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز خیانت شدہ مال کے ساتھ آئے گا اور چونکہ وہ اس غنیمت میں خیانت کرنے والے کی پوری جزا کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور اس میں صرف غنیمت میں خیانت کی سزا کے ذکر پر اقتصار کیا ہے۔ یوں اس آیت کے مفہوم مخالف سے یہ وہم لازم آتا ہے کہ دیگر عمل کرنے والوں کو ہوسکتا ہے کہ پورا پورا بدلہ نہ دیا جائے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو غنیمت میں خیانت کرنے والوں اور دیگر عمل کرنے والوں، دونوں کے لیے جامع ہے۔