فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
یعنی یہ آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ اللہ کا آپ پر احسان ہے کہ آپ ان کے لیے نہایت نرم دل ہوگئے، آپ ان سے نہایت مہربانی اور شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کا خلق بہت اچھا ہے اس لیے وہ آپ کے اردگرد جمع ہوگئے اور وہ آپ سے محبت کرتے اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ كُنتَ فَظًّا﴾ یعنی اگر آپ بد اخلاق ہوتے ﴿غَلِيظَ الْقَلْبِ﴾ یعنی سخت دل ہوتے﴿لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾” تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے“ کیونکہ بدخوئی اور سخت دلی لوگوں کو متنفر اور ان کے دلوں میں بغض پیدا کرتی ہے۔ پس دنیاوی سربراہ کے اچھے اخلاق لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف کھینچتے ہیں اور دین کے بارے میں لوگوں میں رغبت پیدا کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ لوگوں میں قابل تعریف اور اللہ کے ہاں اجر خاص کا مستحق ہوتا ہے اور دینی سربراہ کے برے اخلاق لوگوں کو دین سے متنفر کرتے اور دین کے بارے میں لوگوں میں بغض پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بدخو دینی سربراہ قابل مذمت اور خاص سزا کا مستحق ہے۔ یہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے تب کسی دوسرے کا کیا حال ہوگا۔ کیا یہ سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ اہم بات نہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی پیروی کریں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف راغب کرنے کے لیے ہم ان کے ساتھ نرمی، حسن خلق اور الفت کے ساتھ پیش آئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آیا کرتے تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کی کوتاہیاں معاف کردیں جو آپ کے حق میں ان سے صادر ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حق میں جو کو تاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کریں اور اس طرح عفو اور احسان کو یکجا کردیں۔ ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ یعنی ان امور میں ان سے مشورہ کریں جو مشاورت اور فکر و نظر کے محتاج ہیں۔ کیونکہ مشاورت میں بہت سے فوائد اور بے شمار دینی اور دنیاوی مصالح ہیں۔ جیسے : ١۔ مشاورت دینی عبادات میں شمار ہوتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ٢۔ مشاورت میں لوگوں کے دل جوئی اور اس قلق کا ازالہ ہوتا ہے جو حوادث کے وقت دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کے ہاتھ میں لوگوں کے معاملات کا اختیار ہوتا ہے، جب وہ کسی حادثہ اور اہم موقع پر اہل رائے اور اہل فضیلت اصحاب کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیتا ہے تو لوگوں کے دل اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ہی رائے کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ وہ تمام لوگوں کے لیے کلی مصلحت عامہ میں غور و فکر کرتا ہے۔ تب وہ اس کی اطاعت کی پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ مصالح عامہ میں تگ و دو کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو یہ طرز عمل اختیار نہیں کرتا لوگ اس سے سچی محبت کرتے ہیں نہ اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر وہ اس کی اطاعت کرتے بھی ہیں تو یہ اطاعت کا مل نہیں ہوتی۔ ٣۔ مشاورت میں افکار نکھر کر سامنے آجاتے ہیں کیونکہ ان کو ان کے اصل مقام پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی عقل و فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٤۔ مشاورت کے نتیجے میں صحیح رائے سامنے آجاتی ہے مشاورت سے کام لینے والا عام طور پر غلطی نہیں کرتا۔ اگر اس سے غلطی سر زد ہو بھی جائے یا مقصد پورا نہ ہو تو وہ ملامت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾درآں حالیکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل، سب سے زیادہ علم اور سب سے افضل رائے رکھتے ہیں۔۔۔ تو وہ دوسروں کو یہ حکم کیسے نہ دے گا؟ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِذَا عَزَمْتَ﴾یعنی اگر کسی ایسے معاملے میں جس میں مشاورت کی حاجت ہو تو مشاورت کے بعد جب آپ کوئی عزم کرلیں ﴿فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ﴾ تو اپنی طاقت اور اپنی دور بینی پر بھروسہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت پر بھروسہ کریں ﴿ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ﴾اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے پاس پناہ لیتے ہیں۔