أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ
ان کے لیے نصیحت کہاں ؟ حالانکہ یقیناً ان کے پاس بیان کرنے والا رسول آ چکا۔
اہل تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس دھوئیں سے کیا مراد ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ دھواں ہے کہ جب مجرم جہنم کی آگ کے قریب پہنچیں گے تو یہ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کو اندھا کر دے گا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کے روز جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں۔ اس تقسیم کی اس بات سے تائید ہوتی ہے کہ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز کے بارے میں کفار کو وعید سناتا ہے اور اس روز کے عذاب سے انہیں ڈراتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو تسلی دیتے ہوئے ان کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کے بارے میں انتظار کا حکم دیتا ہے، نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ﴾ ” اس وقت ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جب کہ ان کے پاس واضح رسول پہنچ چکے۔“ یہ ارشاد کفار کو قیامت کے روز اس وقت سنایا جائے گا، جب وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کریں گے لہٰذا ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں لوٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو کفار قریش پر اس وقت نازل ہوا جب انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے بد دعا فرمائی ))اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ(( ” اے اللہ ! ان پر قحط سالی فرما جیسا کہ حضرت یوسف کے زمانے میں قحط کے سال تھے۔“ [صحیح البخاری، الادب، باب تسمیۃ الولید، حدیث :620 و صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب الدخان، حدیث 2898 )پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا قحط بھیجا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ انہیں آسمان اور زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا، حالانکہ دھواں نہیں تھا۔ یہ کیفیت بھوک کی شدت کی وجہ سے تھی۔ تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جو وہ مشاہدہ کریں گے وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے اس قحط کو دور کر دے پس اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو ہٹا دیا۔