إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
نہیں ہے وہ مگر ایک بندہ جس پر ہم نے انعام کیا اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
اس مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت اور آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کی عبادت اور بتوں کی عبادت کی حرمت میں کوئی فرق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت تو وہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ﴾ ” وہ تو ہمارا یک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔“ یعنی ہم نے انہیں نبوت و حکمت اور علم و عمل کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ﴿وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کے لئے انہیں ایک نمونہ بنا دیا۔“ ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل نے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر بھی وجود میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98)” تو اس کا جواب تین طرح سے دیا جاتا ہے: اول : ﴿ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ میں ﴿َمَا﴾ غیر ذی عقل کے لئے استعمال ہوا ہے، اس میں حضرت مسیح علیہ السلام داخل نہیں ہیں۔ ثانی : یہ خطاب مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والے مشرکین سے ہے جو بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ثالث : اس آیت کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾ (الانبیاء :21؍101) ” بے شک وہ لوگ جن کے لئے پہلے ہی سے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔“ بلا شبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء و مرسلین اور اولیاء اللہ اس آیت کریمہ میں داخل ہیں۔