حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، پس وہ برا ساتھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرنے والے کا، اپنے ساتھی کی معیت میں یہ حال تو دنیا کے اندر ہے اور وہ گمراہی، بدراہی اور حقائق کو بدلنے کا جرم ہے۔ رہا اس کا وہ حال جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگا تو وہ بدترین حال ہوگا، ندامت، حسرت اور حزن و غم کا حال ہوگا جو اس کی مصیبت کی تلافی کرسکے گا نہ اس کے ساتھی سے نجات دلا سکے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ﴾ ” حتیٰ کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا : اے کاش ! مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا، پس تو برا ساتھی ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي َكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا﴾ (الفرقان:25؍27۔29) ”اور اس روز جب ظالم اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور حسرت سے کہے گا : کاش ! میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش ! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، ذکر(یعنی قرآن) کے آجانے کے بعد، اس نے مجھے گمراہ کر ڈالا اور شیطان تو انسان کو چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ “