فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمھارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔
﴿ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ﴾” تمہارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔“ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے در پے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر:35؍ 6)’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ ﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا﴾ (الکھف: 18؍50 )’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔ “ پھر انہیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ﴾یعنی زمین کے اندر تمہارا مسکن اور ٹھکانا ہوگا۔ ﴿ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾تمہارا وقت پورا ہونے تک (تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمہیں اور جسے تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لئے زادراہ حاصل کیا جاتا ہے (دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔