أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لئے جن کے ساتھ وہ دوستی رکھتے ہیں اور وہ کفر کے داعی انسانی شیاطین کے ساتھ کفر اور اعمال کفر میں شریک ہیں ﴿ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللّٰـهُ ﴾ ” انہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے انہیں حکم نہیں دیا۔“ یعنی شرک اور بدعات کو رواج دیا، اپنی خواہشات نفس کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور اس کی محرمات کو حلال قرار دیا، حالانکہ دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ دین قرار دے تاکہ لوگ اسے دین بنائیں اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کریں۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے کسی ایسی چیز کو شریعت قرار دینا ممنوع ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے نہ آئی ہو، تب ان فساق کو شریعت سازی کا کیوں کر اختیار دیا جاسکتا ہے جو کفار کے کفر میں شریک ہیں ! ﴿ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” اور اگر پہلے سے طے شدہ بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کیا جا چکا ہوتا۔“ یعنی اگر مدت مقرر نہ کردی گئی ہو تو جسے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے تمام گروہوں کے درمیان فیصلہ کن قرار دیا ہے، نیز یہ کہ وہ ان تمام لوگوں کو اس مدت تک مہلت دے گا تو اللہ تعالیٰ اسی وقت حق پرست کی سعادت اور باطل پرست کی ہلاکت کا فیصلہ کردیتا کیونکہ ہلاکت کا تقاضا موجود ہے مگر ان لوگوں کو اور ہر ظالم کو آخرت میں درد ناک عذاب کا سامنا کرنا ہے۔