وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور وہ جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس کی ضد کی وجہ سے اور اگر وہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی طرف سے ایک مقرر وقت تک پہلے طے ہوچکی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک وہ لوگ جو ان کے بعد اس کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کے متعلق یقیناً ایسے شک میں مبتلا ہیں جو بے چین رکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر مجتمع رہنے کا حکم دیا اور تفرقہ سے منع کیا، اس کے بعد انہیں خبردار کیا کہ وہ اس بات پر غرور نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتاب نازل فرمائی کیونکہ اہل کتاب نے کتاب نازل ہونے کے بعد جو اجتماع و اتحاد کی موجب تھی، ایک دوسرے سے اختلاف کیا، لہٰذا ان کا عمل کتاب اللہ کے حکم کے خلاف تھا اور یہ سب کچھ ان کی طرف سے بغاوت اور عدوان کی وجہ سے صادر ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں بغض، کینہ اور حسد کا رویہ رکھا جس سے ان کے درمیان عداوت پیدا ہوئی اور اس طرح اختلاف پیدا ہوا۔ اے مسلمانو! ان جیسا رویہ اختیار کرنے سے بچو۔ ﴿ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لئے فیصلہ نہ ٹھہر چکا ہوتا۔“ یعنی فیصلہ کن عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر کردینے کا فیصلہ ﴿ لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔“ مگر اللہ کی حکمت اور اس کا حکم اس تاخیر کے متقاضی تھے۔ ﴿ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ ﴾ ” اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے۔“ یعنی علم سے انتساب رکھنے والے لوگ جو ان کے وارث ہوئے اور ان کے جانشین ٹھہرے۔ ﴿ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ ﴾ بہت زیادہ شک و اشتباہ میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان میں اختلاف واقع ہوگیا۔ جہاں ان کے اسلاف نے بغاوت اور عناد کے سبب سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کیا وہاں اخلاف نے بھی شک و ریب کی بنا پر اختلاف کیا۔ اختلاف مذموم میں سب لوگ شریک تھے۔