إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں، وہ ہم پر مخفی نہیں رہتے، تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟ تم کرو جو چاہو، بے شک وہ اسے جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد سے مراد ہے کہ ان کو کسی بھی لحاظ سے حق وصواب سے ہٹادینا۔ یا تو ان آیات الہٰی کا انکار کردینا اور ان آیات کو لانے والے رسول کی تکذیب کرنا یا ان آیات الٰہی کو ان کے حقیقی معانی سے ہٹا کر ایسے معانی کا اثبات کرنا جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے الحاد کرنے والوں کو وعید سنائی ہے کہ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں اسے اس کے ظاہر وباطن کی اطلاع ہے اور وہ عنقریب اسے اس کے الحاد کی سزادے گا۔ بنا بریں فرمایا :﴿ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ﴾” کیا جو شخص آگ میں ڈالا جائے گا“ مثلاً اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد کرنے والا﴿خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن وامان سے آئے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کےعذاب سے محفوظ ومامون اور اس کے ثواب کا مستحق ہے؟ اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہی شخص بہتر ہے۔ جب باطل سے حق واضح ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والا راستہ ہلاکت کی گھاٹیوں میں پہنچانے والے راستے سے الگ ہوگیا تو فرمایا: ﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ﴾” تم جو چاہو کرلو۔‘‘ چاہو تو ہدایت کا راستہ اختیار کرلو جو رضائے الٰہی اور جنت کی منزل کو جاتا ہے اور چاہو تو گمراہی کے راستے کو اختیار کرلو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بدبختی کی منزل پر جا کر ختم ہوتا ہے: ﴿إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾” بے شک جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے‘‘ اس لیے وہ تمہارے احوال واعمال کے مطابق جزادے گا۔ جیساکہ فرمایا : ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾(الکہف:18؍29)’’اور کہ دیجیے حق تمہارے رب کی طرف سے ہے جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا رویہ اختیار کرے۔‘‘