وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور بات کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔
یہ استفہام متحقق اور ثابت شدہ نفی کے معنوں میں ہے، یعنی کسی کا قول اچھا نہیں۔﴿ مِّمَّن دَعَا إِلَى اللّٰـهِ ﴾یعنی کسی کا کلام طریقہ اور حال اس شخص سے بڑھ کر اچھا نہیں ” جس نے اللہ کی طرف بلایا، جو جہلا کو تعلیم کے ذریعے سے غافلین اور اعراض کرنے والوں کو وعظ نصیحت کے ذریعے سے اور اہل باطل کو بحث وجدال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام انواع کی عبادت کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے اور جیسے بھی ممکن ہو اس عبادت کی تحسین کرتا ہے اور ہر اس چیز پر زجروتوبیخ کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو اور ہر اس طریقے سے اس کی قباحت بیان کرتا ہے جو اس کے ترک کرنے کا موجب ہے۔ خاص طور پر یہ دعوت اصول دین اسلام اس کی تحسین اور اس کے دشمنوں کے ساتھ احسن طریقے سے مباحثہ ومجادلہ کی دعوت اس دعوت کے متضاد امور مثلا کفروشرک سے ممانعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تفاصیل اس کے لامحدود جودواحسان اس کی کامل رحمت، اس کے اوصاف کمال اور نعوت جلال کے ذکر کے ذریعے سے اس کے بندوں میں اس کی محبت پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول سے علم وہدایت کے حصول کی ترغیب اور ہر طریقے سے اس پر آمادہ کرنا دعوت الی اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مکارم اخلاق کی ترغیب، تمام مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا، برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سب دعوت الی اللہ کا حصہ ہے۔ مختلف مواقع، حوادث اور مصائب پر حالات کی مناسبت سے عام لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا دعوت الی اللہ میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض ہر بھلائی کی ترغیب اور ہر برائی سے ترہیب دعوت الی اللہ میں شامل ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَعَمِلَ صَالِحًا﴾اور نیک عمل کیے“ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنے ہوئے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عمل صالح کرتا ہو۔﴿وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” اور کہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں“ یعنی جو اس کے حکموں کے تابع اور اس کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ تمام ترصد یقین کا مرتبہ ہے جو اپنی تکمیل اور دوسروں کی تکمیل کے لیے عمل پیرا رہتے ہیں۔ انھیں انبیاء ومرسلین کی مکمل وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح گمراہی کے راستے پر چلنے والے گمراہ داعیوں کا قول بدترین قول ہے۔ ان دو متباین مراتب کے درمیان جس میں ایک اعلیٰ علبیین کا مرتبہ اور دوسرا اسفل الاسفلین کا مرتبہ ہے اتنے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہر مرتبہ لوگوں سے معمور ہے ۔﴿وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾(الانعام:6؍132)” اور ہر شخص کے لیے اس کے عمل کے مطابق درجہ ہے اور آپ کا رب ان اعمال سے بے خبر نہیں جو لوگ کرتے ہیں۔ “