الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے، تب اس کی لمبائی کا کیا حال ہوگا، اللہ تعالیٰ نے اس کو متقین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ متقین ہی اس جنت کے وارث ہیں اور اعمال تقویٰ ہی جنت تک پہنچاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے متقین اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ ﴾یعنی وہ تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ مال دار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کثرت سے خرچ کرتے ہیں اور جب وہ تنگدست ہوتے ہیں تو وہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ ﴾ یعنی جب ان کو دوسروں کی طرف سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو ان کے غصے کا موجب ہوتی ہے۔ یہاں (غیظ) سے مراد ان کے دلوں کا ایسے غصے سے لبریز ہونا ہے جو قول و فعل کے ذریعے سے انتقام کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ طبائع بشری کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے دلوں میں جو غصہ ہوتا ہے اسے دبا دیتے ہیں اور برا سلوک کرنے والے کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ ﴿وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ﴾لوگوں کو معاف کردینے میں ہر اس شخص کو معاف کردینا شامل ہے جو آپ کے ساتھ قول یا فعل کے ذریعے سے برائی سے پیش آتا ہے۔ (عفو) (کظم) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ” عفو“ برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کے ساتھ، مواخذہ ترک کرنے کا نام ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اخلاق جمیلہ سے آراستہ اور عادات رذیلہ سے پاک کرلیا ہو اور وہ ان میں سے ہو جس کی تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ جو اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان کرتے ہوئے اور اس خوف سے کہ کہیں ان کو برائی نہ پہنچے ان کو معاف کردیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے اور اس کا اجر اس کے رب کریم پر واجب ہو، نہ کہ اس بندہ فقیر پر۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۚ﴾ (الشوری :42؍40) ” جو کوئی معاف کر دے اور معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے (بندہ مومن کے) ایسے حال کا ذکر فرمایا ہے جو دیگر احوال سے زیادہ عام، احسن و اعلیٰ اور زیادہ جلیل القدر ہے اور وہ ہے احسان۔ فرمایا ﴿وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾” اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ احسان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں احسان۔ (٢) اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان۔ خالق کی عبودیت میں احسان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے (( أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) [صحیح البخاری، الایمان، سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔، ح:50 وصحیح مسلم ، الایمان، الایمان، ح:1] ” احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی بندگی اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو پھر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ رہا مخلوق کے ساتھ احسان تو یہ ان کو دینی اور دنیاوی نفع پہنچانے اور ان سے دینی اور دنیاوی شر کو ہٹانے اور دور کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جاہل کو تعلیم دینا، غافل کو وعظ و نصیحت کرنا، مسلمان عوام اور خواص کی خیر خواہی کرنا اور ان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا یہ تمام امور مخلوق کے ساتھ احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیز لوگوں کے مختلف احوال اور متباین اوصاف کے مطابق ان تک واجب اور مستحب صدقات وغیرہ پہنچانا بھی احسان ہی میں شامل ہے۔ پس سخاوت کرنا، لوگوں کی تکالیف رفع کرنا خود تکالیف برداشت کرنا احسان ہے۔ جیسا کہ انہی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا وصف بیان فرمایا ہے۔ پس جس نے مذکورہ بالا امور کو قائم کیا اس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو ادا کیا۔