فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
تو اس نے انھیں دو دنوں میں سات آسمان پورے بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کے کام کی وحی فرمائی اور ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت دی اور خوب محفوظ کردیا۔ یہ اس کا اندازہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والا ہے۔
﴿فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ﴾ ” پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔“ پس آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دنوں میں مکمل ہوگئی۔ پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت تمام کائنات کو ایک لمحے میں تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر وہ قدرت رکھنے کے ساتھ ساتھ رفق اور حکمت والا بھی ہے یہ اس کی حکمت اور رفق ہی ہے کہ اس نے اس کائنات کی تخلیق اس مقرر مدت میں کی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس آیت کریمہ اور سورۃ النازعات کی آیت ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴾ (النّٰزعٰت:79؍31۔32)” اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔“ میں بظاہر تعارض دکھائی دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی تعارض ہے نہ اختلاف۔ سلف میں بہت سے اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے کہ زمین کی تخلیق اور اس کی صورت گری آسمانوں کی تخلیق سے متقدم ہے، جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے اور زمین کو پھیلانا کہ ﴿أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا﴾ (النّٰزعٰت:79؍30)” اس نے اس میں سے اس کا پانی جاری کیا اور چارہ اگایا، پھر اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔“ آسمانوں کی تخلیق سے متاخر ہے جیسا کہ سورۃ النازعات میں آتا ہے، اس لئے فرمایا: ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا ﴾(النّٰزعٰت:79؍30۔32) ” اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا: (وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ خَلَقَھَا) ﴿وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ﴾ ” اور ہر آسمان کی طرف اس کے کام کا حکم بھیجا۔“ یعنی ہر آسمان کے لائق امروتد بیروحی کی جو احکم الحاکمین کی حکمت کا تقاضا تھا۔ ﴿وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ﴾ ” اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں کے ذریعے سے مزین کیا۔“ اس سے مراد ستارے ہیں جن سے روشنی اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ظاہری طور پر یہ ستارے آسمان کی زینت اور خوبصورت ہیں ﴿وَحِفْظًا﴾ اور باطنی طور پر شیاطین سے حفاظت کے لئے ان کو شہاب ثاقب بنایا ہے تاکہ وہ آسمانوں سے سن گن نہ لے سکیں۔ ﴿ ذَٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی زمین، آسمانوں اور ان میں جو کچھ ہے، سب کا یہ مذکورہ انتظام ﴿ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾ ” منصوبہ ہے ایک زبردست ہستی کا جو علیم بھی ہے۔“ یعنی زبردست ہستی کا مقرر کردہ انداز ہے جو اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر تمام اشیا پر غالب ہے اور ان کی تدبیر کر رہی ہے اور اس نے اپنی قوت اور غلبے سے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا۔ ﴿ الْعَلِيمِ﴾ جس کے علم نے غائب اور شاہد، تمام مخلوقات کا اپنے علم کے ساتھ احاطہ کر رکھا ہے۔ پس مشرکین کا اس رب عظیم اور واحد قہار کے لئے اخلاص کو ترک کردینا، جس کے سامنے تمام مخلوق سرافگندہ ہے اور تمام کائنات پر اس کی قدرت نافذ ہے، سب سے زیادہ تعجب انگیز چیز ہے۔ پھر خودساختہ معبود بنانا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دینا، حالانکہ وہ اپنے اوصاف و افعال میں ناقص ہیں، اس سے بھی عجیب تر ہے۔ اگر یہ اپنی روگردانی پر جمے رہے تو دنیاوی اور آخروی عذاب کے سوا ان کا کوئی علاج نہیں، اس لئے ان کو ڈراتے ہوئے فرمایا :