ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ
پھر ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جو تم شریک ٹھہراتے تھے؟
﴿ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ﴾ ” کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا اللہ کے شریک بناتے تھے۔“ کیا انہوں نے تمہیں کوئی فائدہ دیا یا انہوں نے تم سے عذاب کو دور کردیا ؟ ﴿قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا﴾ ” وہ کہیں گے وہ تو ہم سے بھول گئے ہیں“ یعنی وہ ہم سے دور ہوگئے اگر وہ موجود بھی ہوتے تب بھی ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتے۔ پھر وہ انکار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا﴾ ” بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔“ اس میں اس کا احتمال ہے کہ ان کے اس انکار سے مراد یہ ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ یہ انکار ان کے کام آئے گا اور ان کو فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے، اور یہی زیادہ قوی ہے، کہ ان کی مراد، اپنے خود ساختہ معبودوں کی الوہیت کے بطلان کا اقرار ہو، نیز اس حقیقت کا اقرار ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور انہوں نے ہستی کی عبادت کر کے گمراہی اور خطا کا ارتکاب کیا جس میں الوہیت معدوم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ﴿كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ الْكَافِرِينَ﴾ ” اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔“ یعنی اس گمراہ کے مانند جس میں یہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ گمراہی سب پر واضح تھی، حتی کہ خود ان پر بھی واضح تھی، جس کے بطلان کا اقرار یہ لوگ قیامت کے روز کریں گے، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾(یونس:10؍66) ” اور جو لوگ اللہ کے سوا خودساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔“ کا معنی بھی واضح ہوجائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ﴾ (فاطر:35؍14)” اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔“ اور یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللّٰـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ (الاحقاف :46؍5)” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتیں۔ “