ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ
یہ اس لیے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جب اس اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا یا جاتا تو تم مان لیتے تھے، اب فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے جو بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
ان سے کہا جائے گا : ﴿ ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ﴾ ” یہ اس سبب سے کہ جب اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تھا۔“ جب اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے لئے اخلاص عمل کے لئے بلایا جاتا اور شرک سے روکا جاتا تھا ﴿كَفَرْتُمْ﴾ ” تو تم انکار کرتے تھے۔“ تمہارے دل اس سے ناگواری محسوس کرتے اور تم اس سے سخت نفرت کرتے تھے ﴿وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ﴾ ” اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔“ تمہارے اس رویے نے تمہیں اس منزل پر پہنچایا۔ تم ایمان لانے سے انکار کرتے اور کفر پر ایمان لاتے رہے۔ تم اس طرز عمل پر راضی رہے جو دنیا و آخرت میں فاسد اور شرکا باعث تھا اور اس طرز عمل کو برا سمجھتے رہے جس میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور اصلاح تھی۔ تم بدبختی، ذلت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے اسباب کو ترجیح دیتے رہے اور فوز و فلاح اور کامیابی کے اسباب سے منہ موڑتے رہے۔ ﴿ وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلً﴾ (الاعراف :7؍146) ” اور اگر وہ سیدھا راستہ دیکھیں تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ان کو گمراہی کا راستہ نظر آجائے تو اس پر چل پڑیں گے۔ “ ﴿فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ﴾ ” تو )آج( فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے جو عالی مقام )اور سب سے( بڑا ہے۔“ )اَلْعَلِی( سے مراد وہ ہستی ہے جو علو ذات، علو قدر اور علو قہر، یعنی ہر لحاظ سے مطلق بلندی کی مالک ہے۔ اس کے علو قدر میں سے اس کا کمال عدل ہے کہ وہ تمام اشیا کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ وہ تقویٰ شعار لوگوں اور فاسق و فاجر لوگوں کو مساوی قرار نہیں دیتا (اَلْکَبِیرُ) جو اپنے اسماء و صفات اور افعال میں کبریا اور عظمت و مجد کا مالک ہے جو ہر آفت، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ جب فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم میں دائمی خلود کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے فیصلے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔