قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ
وہ کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو دفعہ موت دی اور تو نے ہمیں دو دفعہ زندہ کیا، سو ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، تو کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
تب وہ واپس لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے اور ﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ﴾ ” کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی۔“ ایک قول کے مطابق اس سے مراد پہلی موت اور دو مرتبہ صور پھونکنے کے درمیان کی موت ہے یا اس سے مراد ان کے وجود میں لائے جانے سے پہلے عدم محض اور وجود میں لائے جانے کے بعد کی موت ہے۔ ﴿وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ ﴾ ” اور دو مرتبہ تو نے ہمیں زندہ کیا۔“ یعنی دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی ﴿فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴾ ” پس ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے تو کیا نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟“ یعنی وہ نہایت حسرت سے یہ التجا کریں گے مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا انہیں اسباب نجات اختیار نہ کرنے پر سخت زجر و توبیخ کی جائے گی۔