مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ
اللہ کی آیات میں جھگڑا نہیں کرتے مگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تو ان کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ﴿ مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللّٰـهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں۔“ یہاں مجادلہ سے مراد ہے، آیات الٰہی کو رد کرنا اور باطل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے جھگڑا کرنا اور یہ کفار کا کام ہے، رہے اہل ایمان تو وہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے باطل کو نیچا دکھائیں۔ انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے دنیاوی احوال سے دھوکہ کھائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا دنیا میں اس کو اپنی نعمتوں سے نوازنا، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے اور وہ حق ہے۔ بنا بریں ارشاد فرمایا : ﴿ فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ﴾ ” ان کا )دنیا کے(شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔“ یعنی مختلف انواع کی تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں ان کا ملکوں میں آنا جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھوکے میں مبتلا نہ کر دے، بلکہ بندے پر واجب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے حق کے ساتھ عبرت حاصل کرے، حقائق شرعیہ کو دیکھے، ان کی کسوٹی پر لوگوں کو پرکھے، لوگوں کی کسوٹی پر حق کو نہ پرکھے جیسے ان لوگوں کا وتیرہ ہے جو علم و عقل سے محروم ہیں۔