إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
جب تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا کہ ہمت ہار دیں، حالانکہ اللہ ان دونوں کا دوست تھا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔
اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر مہربانی اور احسان اس طرح بھی ہوا کہ ﴿إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ ﴾ جب مومنوں کی دو جماعتیں پست ہمتی کا ارادہ کرچکی تھیں اور وہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ تھے، جیسے پہلے بیان ہوا۔ اللہ نے ان پر اور تمام مومنوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں ثابت قدمی کی توفیق بخشی۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا ﴾ ” اللہ ان کا ولی اور مدگار ہے“ یہاں اللہ تعالیٰ کی خاص ولایت مراد ہے یعنی اس کی اپنے دوستوں پر مہربانی، انہیں ایسے کاموں کی توفیق دینا جن میں ان کا فائدہ ہو اور ایسے کاموں سے محفوظ رکھنا، جن میں ان کا نقصان ہو۔ اس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ جب انہوں نے اس گناہ کا ارادہ کیا کہ وہ پست ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ سے چلے جائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس غلطی سے بچا لیا، کیونکہ ان میں ایمان موجود تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اَللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ﴾ (البقرہ :2؍ 257) ” اللہ مومنوں کا دوست اور مددگار ہے، انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾” اور اللہ ہی کی ذات پر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہئے“ اس میں توکل کا حکم ہے توکل کا مطلب یہ ہے کہ فائدہ مند اشیاء کے حصول کے لیے اور نقصان سے بچنے کے لیے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے دل کا سہارا اللہ پر ہو۔ بندے کو اللہ پر جتنا ایمان ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کا توکل ہوتا ہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دوسروں کی نسبت مومن اللہ پر توکل کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ بالخصوص سختی اور جہاد کے موقع پر انہیں اللہ پر توکل کرنا، اس سے مدد اور فتح طلب کرنا، اپنی طاقت پر بالکل بھروسا نہ کرنا، بلکہ اللہ کی قوت اور حفاظت پر بھروسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ان کی مدد کرتا ہے اور ان کی مصیبتیں اور مشکلات دور فرماتا ہے۔