وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اور بلا شبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔
شرک اعمال کو ساقط اور احوال کو فاسد کردیتا ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ ﴾ ” اور (اے نبی !) آپ کی طرف اور ان کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہ وحی کی گئی“ یعنی تمام انبیائے کرام کی طرف ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے سارے عمل برباد ہوجائیں گے۔“ یہ مفرد مضاف ہے جو تمام اعمال کو متضمن ہے۔ سابقہ جمیع انبیائے کرام کی نبوتوں میں یہ حکم تھا کہ شرک تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے جیسا کہ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد ان کے بارے میں فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الانعام:6؍88)” یہ ہے اللہ کی ہدایت، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس طرح کی ہدایت دے دیتا ہے اور اگر یہ لوگ (انبیائے کرام) شرک کرتے ہوتے تو ان کا سارا کیا دھرا ضائع ہوجاتا ۔“ ﴿وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور آپ (دین اور آخرت کے بارے میں) خسارے میں پڑجائیں گے۔“ پس معلوم ہوا کہ شرک سے تمام اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور بندہ عذاب اور سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔