وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور جب تو صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلا، مومنوں کو لڑائی کے لیے مختلف ٹھکانوں پر مقرر کرتا تھا اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
یہ آیات واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اس کا قصہ معروف ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے اور اس کے درمیان میں بدرکا واقعہ لے آنے میں غالباً یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور دشمن کی سازشوں سے انہیں محفوظ فرمائے گا۔ یہ ایک عام حکم اور سچا وعدہ تھا، جس کی شرائط پوری کی جاتیں تو اس کا پورا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو قصوں میں اس کا ایک نمونہ پیش فرما دیا کہ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کی مدد اس لیے فرمائی تھی کہ انہوں نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا اور احد میں انہیں دشمنوں کے ہاتھوں اس لیے نقصان پہنچا کہ ان میں سے بعض افراد سے ایسی غلطی ہوگئی جو تقویٰ کے منافی تھی دونوں واقعات اکٹھے بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ اللہ کو بندوں کا یہ عمل پسند ہے کہ جب انہیں کوئی ناخوشگوار صورت حال پیش آجائے تو انہیں وہ نعمت یاد کرنی چاہئے جو انہیں پسند ہے، تو ان کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور وہ اس بڑی نعمت پر رب کا شکر کریں گے۔ جس کے مقابلے میں یہ ظاہری مصیبت، جو حقیقت میں نعمت ہی ہے، بڑی نعمت کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ﴿أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا ﴾(آل عمران :3؍165) ” کیا بات ہے کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے“ واقعہ احد کا خلاصہ یہ ہے کہ جب 2 ھ میں جنگ بدر کے بعد بچے کھچے مشرکین مکہ پہنچے، تو انہوں نے اپنی طاقت کے مطابق مال، افراد اور اسلحہ کے ساتھ بھرپور تیاری کی، حتیٰ کہ اتنا کچھ جمع ہوگیا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا مقصود حاصل کرنے اور اپنا غصہ نکالنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تب وہ تین ہزار جنگ جو افراد کا لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ کے قریب آٹھہرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو طے پایا کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار آدمی لے کر روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد عبداللہ بن ابی (منافق) اپنے جیسے تین سو افراد لے کر واپس پلٹ گیا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد میں ایک تہائی مقدار کی کمی ہوگئی۔ مومنوں کے دو گروہ بھی پلٹ جانے کا سوچنے لگے۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے قبائل تھے۔ اللہ نے انہیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب احد کے مقام پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو ترتیب دے کر ان کے مختلف دستے اپنے اپنے مقام پر متعین فرمائے۔ احد کا پہاڑ ان کی پشت کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنی پیٹھیں احد کی طرف رکھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس صحابہ کرام کو احد کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہیں ٹھہرے رہیں اور وہ جگہ نہ چھوڑیں، تاکہ پیچھے سے دشمن کے حملہ کا خطرہ نہ رہے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کے مابین جنگ ہوئی تو مشرکوں کو بری طرح شکست ہوئی، وہ اپنی لشکر گاہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے انہیں قتل اور قید کرنا شروع کردیا۔ جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر متعین فرمایا تھا، جب انہوں نے یہ صورتحال دیکھی تو (انہوں نے سوچا کہ اب ہمارا فرض مکمل ہوگیا ہے۔ اس لیے) انہوں نے آپس میں کہا، غنیمت ! غنیمت ! ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جبکہ مشرکین شکست کھاچکے ہیں۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہ کریں۔ لیکن دوسروں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ جب انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں صرف چند افراد رہ گئے، تو مشرکین کا گھڑ سوار دستہ اس گھاٹی سے آگیا اور مسلمانوں کے پیچھے آ کر لشکر کے پچھلے دستے پر حملہ کردیا۔ تب مسلمان کچھ ادھر ادھر ہوئے، جو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ جس سے ان کے گناہ معاف ہوئے، اور تعمیل حکم میں کوتاہی کی سزا مل گئی۔ اس کے نتیجے میں جن کی قسمت میں شہادت تھی، وہ شہید ہوگئے۔ آخر کار مسلمان جبل احد کی چوٹی کی طرف جمع ہوگئے۔ اللہ نے مشرکین کے ہاتھوں کو روک دیا اور وہ لوگ اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ ﴾ ” اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ اپنے گھر سے نکلے‘‘ اس مقام پر (غدوت) کا مطلب ”مطلقاً نکلنا ہے“ صبح کے وقت نکلنا نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ ﴿تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ﴾ ” مومنوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے“ یعنی آپ انہیں ترتیب دے رہے تھے اور ہر ایک کو اس مقام پر ٹھہرا رہے تھے جو اس کے لیے مناسب تھا۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم تعریف ہے۔ کہ آپ بنفس نفیس ان کو منظم فرما رہے تھے اور جنگ کے لیے مناسب مقامات پر ٹھہرا رہے تھے۔ اس کی وجہ آپ کے علم و فراست کا کمال، دور اندیشی اور بلند ہمتی تھی۔ علاوہ ازیں آپ کامل شجاعت سے بہرہ ور تھے، صلوات اللہ وسلامہ علیہ ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” اور اللہ سننے والا جاننے والاہے“ جو ہر بات سنتا ہے۔ مومنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور منافقوں کی بھی۔ ہر ایک کی بات چیت سے اس کے دل کے جذبات، احساسات اور خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی نیتوں کو جانتا ہے، وہ ان کے مطابق انہیں مکمل بدلہ عطا فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ تمہارے معاملات سنوارتا ہے اور تمہیں اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے بھی اسی طرح فرمایا تھا : ﴿إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ﴾(طہ :2؍46) ” میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا ہوں۔ “