أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انھوں نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ یہ لوگ اپنے مال کی وجہ سے فریب میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ مال اپنے مالک کے حسن حال پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا رزق اس بات پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ﴾ اپنے بندوں میں سے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے ﴿وَيَقْدِرُ﴾ اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، یعنی وہ اپنے بندوں میں سے خواہ وہ نیک ہوں یا بد جس کا چاہے اس کا رزق تنگ کردیتا ہے اس کا رزق تمام مخلوق میں مشترک ہے مگر ایمان اور عمل صالح صرف ان لوگوں کے لئے مختص کرتا ہے جو مخلوق میں بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” بے شک اس میں بھی ان کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔“ یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ رزق کی تنگی اور کشادگی کا مرجع محض اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال کو خوب جانتا ہے۔ کبھی کبھی اپنے بندوں پر لطف و کرم کی وجہ سے بھی ان پر رزق تنگ کردیتا ہے کیونکہ اگر وہ ان کا رزق کشادہ کر دے تو وہ زمین میں سرکشی کرتے ہیں اور رزق کی اس تنگی میں اللہ تعالیٰ ان کے دین کی اصلاح کی رعایت رکھتا ہے جو انکی سعادت اور فلاح کی بنیاد ہے۔ واللہ اعلم