قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
تو کہہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
اسی لئے فرمایا : ﴿ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی کہہ دیجیے : اے اللہ ! زمین و آسمان کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے ﴿عَالِمَ الْغَيْبِ ﴾ اور ان تمام امور کو جاننے والے جو ہماری آنکھوں اور ہمارے علم سے غائب ہیں ﴿وَالشَّهَادَةِ﴾ اور جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ﴿أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں، فیصلہ کرے گا۔“ سب سے بڑا اختلاف موحد و مخلص بندوں، جو کہتے ہیں کہ ان کا موقف حق ہے اور آخرت میں صرف انہی کے لئے بھلائی ہے، اور مشرکین کے درمیان ہے جنہوں نے تجھے چھوڑ کر بتوں اور دوسروں ہستیوں کو اپنا معبود بنا لیا اور ان ہستیوں کو تیرے برابر ٹھہرایا جو کسی طرح بھی برابر نہیں ہیں۔ وہ تجھے انتہائی حد تک ناقص قرار دیتے ہیں جب ان کے خود ساختہ معبودوں کا ذکر ہوتا ہے تو خوشی سے کھل اٹھتے ہیں اور جب تیرا ذکر ہوتا ہے تو وہ نہایت کراہت سے منقبض ہوجاتے ہیں بایں ہمہ ان کو زعم ہے کہ وہ حق پر ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں اور وہ آخرت میں بھلائی سے بہرہ مند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللّٰـهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴾ (الحج:22؍17) ” بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی، عیسائی، صابی اور مجوسی ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ “ اس کے بعد آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ إِنَّ اللّٰـهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴾ (الحج:22؍19۔23)” یہ جھگڑے کے دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پس ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان کو آگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے اور ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر تک کے حصے گل جائیں گے اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے جب بھی وہ غم کے مارے جہنم سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ( اور انہیں کہا جائے گا) اب جلا دینے والے عذاب کا مزا چکھو۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ انہیں اس میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ﴾(الانعام:6؍82) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا، وہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (مکمل) امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔“ اور فرمایا ﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾(المائدۃ:5؍72) ” جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو بلاشبہ اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عموم تخلیق، عموم علم اور بندوں کے درمیان عموم حکم کا بیان ہے تمام مخلوقات اس کی قدرت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے اور دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور انہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ بندوں کے اچھے برے اعمال اور ان کی جزا و سزا اور اس کی تخلیق اس کے علم پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ (ملک :67؍14)” کیا وہ نہیں جانتا جس نے (انہیں) پیدا کیا ہے؟“