أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
خبردار! خالص دین صرف اللہ ہی کا حق ہے اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں، اچھی طرح قریب کرنا۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو۔
﴿أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اخلاص کے حکم کو متحقق کرتا ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام تر کمال کا مالک ہے اور اس نے اپنے بندوں کو ہر لحاط سے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اسی طرح ہر قسم کے شک و شبہے سے پاک دین خالص بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرمایا اور مخلوق میں سے چنے ہوئے بندوں کے لئے منتخب فرمایا اور اسی کو اختیار کرنے کا اپنے بندوں کو حکم دیا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت کے ذریعے سے بندوں کے مطالب کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو متضمن ہے۔ یہی وہ دین ہے جو قلوب کی اصلاح کرکے ان کو پاک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی عبادت میں شرک کرنا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا شرک سے کوئی تعلق نہیں اور وہ شریکوں سے، سب سے زیادہ بے نیا زہے۔ شرک قلب و روح اور دنیا و آخرت کو فاسد کرتا ہے اور نفوس کو بدبختی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے، اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے توحید اور اخلاص کا حکم دیا ہے، وہاں شرک سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی خبر دی ہے جنہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ان کو پکارتے ہیں اور انہیں اپنا والی و مددگار بناتے ہیں وہ اپنا عذر بیان کرتے ہوئے کہا ہیں۔ ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰـهِ زُلْفَىٰ﴾ ” ہم انہیں صرف اس لئے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری حاجتیں پیش کریں اور اس کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ ورنہ درحقیقت ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی چیز پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں اور نہ انہیں کسی قسم کا کچھ اختیار ہی حاصل ہے۔ یعنی ان مشرکین نے اخلاص کو چھوڑ دیا جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ سب سے بڑی چیز، یعنی شرک کا ارتکاب کیا اور اس ہستی کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کیا جس کی نظیر کوئی چیز نہیں، جو عظیم بادشاہ ہے۔ وہ اپنی فاسد عقل اور سقیم رائے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کی خدمت میں ان کے مقربین، سفارشیوں اور وزیروں کے بغیر حاضر نہیں ہوا جاسکتا جو رعایا کی ضروریات اور حاجتیں ان بادشاہوں تک پہنچاتے ہیں، رعایا کے لئے بادشاہوں سے رحم طلب کرتے ہیں ان بادشاہوں کے پاس رعایا کے معاملات پیش کرتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ بھی ان بادشاہوں کے مانند ہے۔ یہ فاسد ترین قیاس ہے، کیونکہ عقل و نقل اور فطرت کے مطابق خالق اور مخلوق کے درمیان عظیم فرق ہونے کے باوجود یہ قیاس خالق اور مخلوق میں مساوات کو متضمن ہے۔ بادشاہ براہ راست رعایا کے احوال نہیں جانتے، اس لئے انہیں اپنے اور عایا کے درمیان واسطے کی ضرورت ہوتی ہے، رعایا کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بادشاہوں تک ان کے حالات پہنچائیں۔ بسا اوقات ان بادشاہوں کے دلوں میں ضرورت مند کے لئے کوئی رحم نہیں ہوتا تب رعایا سفارش کرنے والوں اور وزراء وغیرہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے ہیں۔ یہ لوگ بادشاہوں کے ہاں ان کے لئے مراعات کے حصول اور ان کی دل جوئی کے لئے واسطہ بننے والے سفارشیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بسا اوقات رعایا خود محتاج اور مفلس ہوتی ہے اس لئے وہ محتاجی کے ڈر سے ان کی خاطر و مدارات نہیں کرسکتی۔ جہاں تک رب تعالیٰ کا معاملہ ہے تو وہ ایسی ہستی ہے جس کے علم نے تمام امور کے ظاہر اور باطن کا احاطہ کررکھا ہے، وہ کسی ایسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے اس کے بندوں اور اس کی رعایا کے احوال سے آگاہ کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا اور سب سے بڑھ کر سخی ہے، وہ مخلوق میں سے کسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے بندوں پر رحم کرنے پر آمادہ کرے، بلکہ رب تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر یا ان کے والدین ان پر رحم کرتے ہیں۔ وہ انہیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کریں جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کو حاصل کرلیں وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے جو وہ خود بھی اپنے لئے نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے جو کامل غنائے مطلق کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر اول سے لے کر آخر تک تمام مخلوق ایک میدان میں اکٹھی ہوجائے اور وہ اس سے اپنی اپنی ضرورت اور تمنا کے مطابق سوال کریں تو وہ سب کو عطا کرے گی۔ وہ اس کی غنا میں سے ذرہ بھر کمی کرسکتے ہیں نہ اس کے خزانوں میں، مگر اتنی سی کہ جو سمندر میں سوئی ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پھر تمام سفارشی اس سے ڈرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکتا۔ تمام تر سفارش کا صرف وہی مالک ہے۔ اس فرق سے مشرکین کی جہالت، حماقت اور اللہ کے حضور ان کی جسارت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ شرک کے مرتکب کے لئے عدم مغفرت میں کیا حکمت ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح کو متضمن ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فریقین، یعنی مخلص مومنوں اور مشرقین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اور اس میں مشرکین کے لئے تہدید بھی ہے ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” بے شک جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا“ اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ معلوم ہے جو یہ ہے کہ مخلص اہل ایمان، نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰٓـهَ لَا يَهْدِي ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ راہ راست پر گامزن ہونے کی توفیق عطا نہیں کرتا ﴿مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ” اس شخص کو جو جھوٹا اور ناشکرا ہو، یعنی جس کا وصف کذب اور کفر ہے، اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور نصیحتیں آتی ہیں، مگر اس کے برے اوصاف دور نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ اسے بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے مگر یہ ان کا انکار کردیتا ہے ان کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ پس ان حالات میں ایسے شخص کے لئے ہدایت کیسے ہوسکتی ہے جس نے اپنے لئے ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہو اور انجام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اسکے دل پر مہر لگا دی، لہٰذا وہ ایمان نہیں لائے گا۔