قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
اس نے کہا بلاشبہ یقیناً اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقیناً ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کرلیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گرگیا اور اس نے رجوع کیا۔
جب داؤد علیہ السلام نے اس کی بات سنی۔۔۔ فریقین کی باتوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لئے حضرت داؤد علیہ السلام نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرافریق بات کرے، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لئے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟۔۔۔ تو فرمایا : ﴿ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ﴾ ” یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے، بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔“ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ ” اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔“ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے : ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔“ کیونکہ انہیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انہیں ظلم سے باز رکھتے ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ﴾ ” اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ “ ﴿وَظَنَّ دَاوُودُ ﴾ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿أَنَّمَا فَتَنَّاهُ ﴾ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لئے یہ مقدمہ بنا کر انکے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ﴾ جب آپ سے لغزش سر زد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ” اور جھک کر گرپڑے۔“ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَأَنَابَ ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔