سورة آل عمران - آیت 97

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس میں واضح نشانیاں ہیں، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو کوئی اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ ﴾ ” اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں“ یعنی مختلف علوم الٰہی اور بلند مطالب پر واضح دلائل اور قطعی براہین موجود ہیں۔ مثلاً اللہ کی توحید کے دلائل، اس کی رحمت، حکمت، عظمت، جلالت، اس کے کامل علم اور بے حد و حساب جو دوسخا کے دلائل، اور انبیاء و اولیاء پر ہونے والے اللہ کے احسانات کی نشانیاں۔ ان نشانیوں میں سے ایک ﴿مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ﴾ ” مقام ابراہیم“ بھی ہے۔ اس سے وہ پتھر بھی مراد ہوسکتا ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم کعبہ کی عمارت بناتے رہے تھے۔ پہلے یہ کعبہ کی دیوار سے متصل تھا۔ حضرت عمر رضی الہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اسے موجودہ مقام پر منتقل کیا۔ اس پتھر میں نشان سے مراد ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہیں کہ سخت چٹان میں نشان پڑگئے جو امت محمدیہ کے ابتدائی زمانے تک باقی رہے۔ یہ ایک خرق عادت معجزہ ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نشان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت، شرف اور احترام کے جذبات رکھ دیئے ہیں۔ ’’مقام ابراہیم“ کی دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے جسے ابراہیم کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جن سے آپ کا تعلق ہے یعنی وہ تمام مقامات جہاں حج کے مناسک ادا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے حج کے تمام مناسک بھی ” آیات بینات“ میں شامل ہیں۔ مثلاً طواف، سعی اور ان کے مقامات، عرفہ اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، رمی کرنا اور دوسرے شعائر۔ اس میں نشانی یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام نقش کردیا ہے۔ لوگ یہاں تک پہنچنے کے لئے مال و دولت خرچ کرتے اور ہرقسم کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عجیب و غریب اسرار اور اعلیٰ معنویات پوشیدہ ہیں۔ اس کے افعال میں حکمتیں اور مصلحتیں ہیں کہ مخلوق ان میں سے تھوڑی سی حکمتیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہے۔ اس کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ امن عطا فرماتا ہے اور اسے شرعی حکم بھی قرار دے دیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے احترام کا حکم دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے، اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ اسے وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ حرمت حرم کے شکار، درختوں اور نباتات کو بھی حاصل ہے۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کوئی جرم کرلے، پھر حرم میں آجائے تو اسے بھی امن حاصل ہوگا۔ جب تک وہ اس سے باہر نہیں آتا اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ اللہ کے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق اس مقام کے امن ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں، حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کے دلوں میں بھی اس کا احترام ڈال دیا۔ مشرکین عرب انتہائی لڑاکا طبیعت والے، غیرت والے اور کسی کا طعنہ برداشت نہ کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنے باپ کا قاتل بھی حرم کی حدود میں مل جاتا تھا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کے حرم ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو اسے نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ جیسے ہاتھی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس موضوع پر میں نے ابن قیم رحمہ اللہ کا بہت اچھا بیان پڑھا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسے یہاں ذکر کر دوں، کیونکہ اس کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں : فائدہ :﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ اس آیت میں (حج البیت) مبتدا ہے۔ اس کی خبر اس سے پہلے دو جار و مجرور میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے۔ معنیٰ کے لحاظ سے (علی الناس) کو بنانا بہتر ہے کیونکہ یہ وجوب کے لئے ہے اور وجوب کے لئے (علی) ہونا چاہئے۔ ممکن ہے ” وللہ“ خبر ہو۔ کیونکہ اس میں وجوب اور استحقاق کا مفہوم ہے۔ اس قول کو اس امر سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ فائدہ کا اصل مقام خبر ہے۔ اس مقام میں اس کو لفظاً مقدم کیا گیا ہے لیکن معنیٰ کے لحاظ سے وہ موخر ہے۔ اس وجہ سے (وللہ علی الناس) کہنا بہتر ہوا۔ پہلے قول کی تائید میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجوب کے لئے (حج البیت علی الناس) ” بیت اللہ کا حج لوگوں پر واجب ہے“ کا انداز زیادہ استعمال ہوتا ہے بنسبت یوں کہنے کے (حج البیت للہ) ” بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے۔ “ اس تشریح کے مطابق پہلے مجرور کو مقدم کرنا، حالانکہ وہ خبر نہیں، دو فوائد کا حامل ہے : پہلا فائدہ : یہ حج کو واجب کرنے والے (اللہ) کا نام ہے۔ لہٰذا وجوب کے ذکر سے پہلے اس کا ذکر کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی آیت میں تین اشیا کا ذکر ہے جو وقوع کے لحاظ سے بالترتیب ذکر ہوئی ہیں : (١) اس فریضہ کو واجب کرنے والا۔ اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔ (٢) واجب کو ادا کرنے والا، جس پر وہ فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ ہیں لوگ (٣) وہ حق جس کے ساتھ اللہ کا تعلق واجب کرنے کا اور بندوں کا تعلق واجب ہونے اور ادا کرنے کا ہے، وہ ہے حج۔ دوسرا فائدہ : مجرور اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہونے کی وجہ سے اہمیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا اس کے واجب کئے ہوئے فریضہ کے احترام کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے، اس فریضہ کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے لئے اسے پہلے ذکر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا واجب کیا ہوا کام کسی اور کے واجب کئے ہوئے کی طرح نہیں، بلکہ زیادہ اہم اور لازم ہے۔ لفظ ” مَن“ بدل ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مصدر کا فاعل قرار دینا پسند کیا ہے گویا آیت کا مفہوم یوں ہے: (ان یحج البیت من استطاع الیہ سبیلا) ” کہ جو شخص اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کا حج کرے“ یہ قول کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ (١) حج فرض عین ہے۔ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے حج کا فریضہ فرض کفایہ ہوتا۔ یعنی جب استطاعت والوں نے حج کرلیا تو دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہوگیا۔ اس صورت میں معنی یوں بن جاتا ہے (وللہ علی الناس حج البیت مستطیعھم) ’’لوگوں کے ذمے اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے استطاعت رکھنے والے کے لئے“ اس کا نتیجہ ہوگا کہ جب استطاعت رکھنے والوں نے ادا کرلیا تو استطاعت نہ رکھنے والوں پر واجب نہیں رہا۔ حالانکہ صحیح صورتحال یہ نہیں۔ بلکہ حج ہر شخص پر فرض عین ہے۔ طاقت والا حج کرے یا نہ کرے وہ اس کے ذمے ہے۔ لیکن طاقت نہ رکھنے والے کو اللہ نے معذور قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، نہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ حج کرے گا تو خود اس کا اپنا فرض ادا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ طاقت رکھنے والوں کے حج کرنے کی وجہ سے طاقت نہ رکھنے والوں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہو۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوتی ہے کہ جب کوئی کہے : (واجب علی اھل ھذہ الناحیۃ ان یجاھد منھم الطائفۃ المستطیعون للجھاد) ” اس علاقے والوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جہاد کی طاقت رکھنے والی جماعت ضرور جہاد کرے“ تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جب طاقت رکھنے والے جہاد کریں تو دوسرے لوگوں سے وجوب کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر یوں کہا جائے (واجب علی الناس کلھم ان یجاھد منھم المستطیع) ” سب لوگوں کا فرض ہے کہ ان میں سے طاقت رکھنے والا جہاد کرے“ تو وجوب کا تعلق تو ہر فرد سے ہوگا، لیکن طاقت نہ رکھنے والے معذور سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا (للہ حج البیت علی المستطیعین) کے بجائے آیت مبارکہ کے انداز سے ارشاد فرمانے میں یہ نادر نکتہ ہے۔ لہٰذا سے غور کر کے سمجھنا چاہئے۔ دوسری وجہ : جملہ میں فاعل کی موجودگی میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف کرنا مفعول کی طرف اضافت کرنے کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اس اصول سے گریز صرف کسی منقول دلیل ہی کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ آیت مبارکہ میں اگر (مَنْ) کو فاعل تسلیم کیا جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ مصدر کو اس کی طرف مضاف کر کے یوں کہا جائے : (وللہ علی الناس حِجُّ مَنِ اسْتَطَاعَ) اسے (یُعْجِبُنِی ضَرْبُ زَیْدٍ عَمْرًا) جیسی مثال پر یا مصدر اور اس کے مضاف الیہ فاعل کے درمیان مفعول یا ظرف کے فاصلے کی صورت پر محمول کرنا گویا مکتوب پر محمول کرنا ہے جو مرجوع ہے۔ جیسے ابن عامر کی یہ قراءت مرجوح ہے (کذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکانھم) لہٰذا یہ قول درست نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ (من استطاع) میں (من) بدل بعض ہے تو ضروری ہے کہ کلام میں کوئی ضمیر موجود ہو جو (الناس) کی طرف راجع ہو۔ یعنی عبارت گویایوں ہے (من استطاع منھم) اکثر مقامات پر اس ضمیر کا حذف کرنا بہتر نہیں ہوتا۔ البتہ یہاں اس کا حذف کرنا اچھا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں : (١) (من) کا لفظ اس کے مبدل منہ کی طرح غیر عاقل پر واقع ہوا ہے اس لئے اس سے ربط قائم ہوگیا۔ (٢) یہ اسم موصول ہے جس کا صلہ اس سے زیادہ خاص ہے۔ اگر صلہ عام ہوتا تو ضمیر حذف کرنا قبیح ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ کہیں : (رأیت اخوتک من ذھب الی السوق منھم) ” میں نے تیرے بھائیوں کو، ان میں سے جو بازار گیا، دیکھا“ تو یہ قبیح ہوگا۔ کیونکہ بازار جانیوالا دوسرے بھائیوں کی نسبت عام ہے۔ اسی طرح اگر یوں کہا جائے : (الیس الثیاب ماحسن) ” کپڑے پہن جو اچھے ہیں“ مطلب یہ ہوگا کہ (ماحسن منھا) ” ان میں سے جو اچھے ہیں“ تو ضمیر ذکر نہ کرنا زیادہ غلط ہوگا۔ کیونکہ لفظ (ماحسن) میں ” الثیاب“ کی نسبت عموم پایا جاتا ہے اور بدل بعض کو مبدل منہ سے زیادہ خاص ہونا چاہئے۔ اگر وہ زیادہ عام ہو پھر اسے مبدل منہ کی طرف لوٹنے والی چیز کی طرف مضاف کردیا جائے، یا اس ضمیر کے ساتھ مقید کردیا جائے تو عموم ختم ہوجائے گا اور خصوص کا مفہوم باقی رہ جائے گا۔ (٣) یہاں مضاف کو حذف کرنا اس لئے بھی بہتر ہے کہ صلہ اور موصول کے ساتھ کلام زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ لفظ (للہ) کے مجرور کے بارے میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ وہ (من سبیل) کے محل میں ہو۔ گویا گویا وہ نکرہ کی صفت ہے جو نکرہ سے مقدم ہے۔ کیونکہ اگر اسے موخر کیا جاتا تووہ (سبیل) کی صفت کی جگہ ہوتا۔ دوم یہ کہ (سبیل) کا متعلق ہو۔ اگر آپ کہیں کہ یہ اس کا متعلق کیسے ہوسکتا ہے جب کہ اس ” سبیل“ میں فعل کا معنیٰ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں ” سبیل“ کا مفہوم ” الموصل الی لبیت“ کعبہ تک پہنچانے والی چیز یعنی سامان سفر وغیرہ ہے۔ لہٰذا اس میں فعل کا تھوڑا سا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہاں ” سبیل“ سے وہ راستہ مراد نہیں جس پر چلتے ہیں۔ اس لئے جار مجرور اس کے متعلق ہوسکتا ہے اور حسن نظم اور اعجاز لفظی کے لحاظ سے جار مجرور کو مقدم کرنا بہتر تھا، اگرچہ اس کا اصل مقام موخر ہی ہے، کیونکہ یہ ضمیر ’ ’بیت“ کی طرف راجع ہے اور اصل اہمیت ” بیت“ (کعبہ) ہی کو دینا مقصود ہے اور اہل عرب کلام میں اہم چیز کو مقدم کرتے ہیں۔ یہ سُہَیلی کے کلام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ قول بہت بعید ہے۔ بلکہ جار مجرور کے متعلق ان دونوں سے بہتر ایک قول ہے، وہی درست ہے اور اس آیت سے وہی مفہوم مناسبت رکھتا ہے۔ وہ ہے ” وجوب“ جو آیت کے لفظ (علی الناس) سے سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (یحب للہ علی الناس الحج) ” لوگوں پر اللہ کے لئے حج کرنا واجب ہے۔“ یعنی وہ اللہ کا وجوبی حق ہے۔ اسے ” سبیل“ کے متعلق قرار دے کر اس کا حال بنانا بہت ہی بعید ہے۔ آیت سے یہ مفہوم بالکل ذہن میں نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں ( للہ علیک الصلاۃ والزکاۃ و الصیام) ” آپ پر اللہ کے لئے نماز، زکوٰۃ اور روزہ ضروری ہے“ آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ایسے کام کا ذکر کرتا ہے، جسے واجب یا حرام قرار دینا مقصود ہو تو وہ اکثر اوقات امرونہی کے الفاظ سے مذکورہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لئے ایجاب، کتابت اور تحریم کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ﴾ (البقرہ :2؍ 183) ” تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے۔“﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ﴾ (المائدۃ:5؍ 3) ” تم پر مردار حرام کیا گیا ہے“ ﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ﴾(الانعام :6؍ 151) ” آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں لگائی ہیں۔“ حج کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾ اس سے دس انداز سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو مقدم فرمایا ہے اور اس پر ”ل“ داخل کیا ہے، جس سے استحقاق اور اختصاص ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جن پر واجب ہے ان کے لئے عموم کا صیغہ استعمال کیا ہے، اور اس پر ” علی“ داخل کیا ہے، جس سے اہل استطاعت کو بدل بنایا ہے پھر ” سبیل“ نکرہ ہے جو سیاق شرط میں واقع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حج ہر قسم کے ” سبیل“ میسر ہونے سے واجب ہوجاتا ہے مثلاً خوراک اور مال یعنی وجوب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جسے ” سبیل“ کہا جا سکے۔ پھر اس کے بعد سب سے عظیم تہدید ذکر فرمائی اور فرمایا ﴿وَمَن كَفَرَ﴾ یعنی جس نے اس واجب پر عمل نہ کر کے اور اسے ترک کر کے کفر کا ارتکاب کیا۔ پھر اس کی عظمت شان کے لئے وعید کو موکد فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں۔ یہاں استغنا کے ذکر کا مقصد ناراضی، غصے اور بے اعتنائی کا اظہار ہے، جو بہت عظیم اور بلیغ وعید ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہاں (العالمین) کا عام لفظ بولا گیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا : (فان اللہ غنی عنہ) ”اللہ اس سے مستغنی ہے“ کیونکہ جب وہ تمام جہانوں سے مستغنی اور بے پروا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے کامل و مکمل استغنا حاصل ہے۔ اس طرح اس کے واجب کردہ حق کو ترک کرنے والے پر اس کی ناراضی زیادہ تاکید سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس مفہوم کو لفظ (ان) کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جو بذات خود تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دس وجوہ ہیں جن سے اس فرض عظیم کا ضروری اور موکد ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت مبارکہ میں موجود بدل میں پوشیدہ نکتہ پر بھی غور کیجے۔ بدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسناد دوبارہ ذکر ہوئی ہے۔ ایک دفعہ اسکی اسناد عمومی طور پر سب لوگوں سے ہے اور دوسری بار خاص طور پر استطاعت رکھنے والوں سے اور بدل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسناد کی تکرار سے معنی میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی لئے بدل عامل کی تکرار اور دہرانے کا مفہوم رکھتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ آیت میں کس طرح ابہام کے بعد توضیح اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اور اس کی شان کی تاکید فرماتے ہوئے کلام کو دو صورتوں میں وارد کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ کس طرح وجوب کا ذکر کرنے سے پہلے کعبہ شریف کی خوبیوں اور عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے دلوں میں اس کی زیارت اور حج کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ﴾چنانچہ کعبہ شریف کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ (١) وہ دنیا میں عبادت کے لئے مقرر کیا جانے والا سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے۔ (٢) برکت والا ہے۔ برکت کا مطلب خیر کا دوام اور کثرت ہے۔ دنیا میں اتنی برکت والا، اس قدر کثیر اور دائمی خیر والا اور مخلوق کے لئے اس قدر فوائد کا حامل کوئی گھر موجود نہیں۔ (٣) وہ ہدایت ہے۔ ہدایت دینے والے کے بجائے ہدایت (مصدر) کا لفظ بولنے میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا یہ خود سراپا ہدایت ہے۔ (٤) اس میں آیات بینات (واضح نشانیاں) موجود ہیں۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ (٥) اس میں داخل ہونے والے کے لئے امن ہے۔ اگر یہی صفات ذکر کردی جاتیں اور اس کی زیارت کا حکم نہ دیا جاتا، تب بھی ان صفات کی وجہ سے دلوں میں اس کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوتی، خواہ کتنی دور سے آنا پڑتا۔ یہاں تو یہ صفات ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس قدر تاکید ات لائی گئی ہیں، جن سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس گھر کی بے حد اہمیت ہے اور اس کے نزدیک اس کی شان و عظمت کی کوئی حد نہیں۔ اگر اس میں یہی شرف ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے (بیتی) ” میرا گھر“ فرمایا ہے، تو یہ نسبت ہی اتنی بڑی فضیلت اور اتنا بڑا شرف ہے کہ صرف اس کی وجہ سے جہان والوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور اس کی زیارت کے لئے دور دراز سے کھنچے آتے۔ محبت کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اس کے پاس اکٹھے ہو کر آتے ہیں، اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ جتنی زیادہ زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی محبت اور شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نہ دور جانے سے محبت کی لو مدہم ہوتی ہے نہ وصال سے ان کی پیاس بجھتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : میں اس کا طواف کرتا ہوں اور دل پھر بھی شوق سے بھرپور ہے کیا طواف کے بعد مزید قرب بھی ہوسکتا ہے؟ میں اس کے حجر اسود کو چومتا ہوں اور اس طرح دل میں موجزن محبت اور پیاس کو ٹھنڈک پہنچاتا ہوں قسم ہے اللہ کی ! میری محبت ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل اور زیادہ دھڑکنے لگتا ہے اے جنت ماویٰ! اے مقصود تمنا ! اور اے میری آرزو ! ہر امان سے قریب تر ! غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پر اصرار کرتے ہیں تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں میں اگر تجھ سے دور ہوا تو اس کی وجہ بے اعتنائی نہیں اس کا گواہ میری (اشک بار) آنکھیں اور (نالہ وشیون کرتی) زبان ہے تجھ سے دور ہونے کے بعد میں نے صبر کو بھی آواز دی اور گریہ کو بھی گریہ نے (فوراً) لبیک کہا (اور آگیا) اور صبر نے میری بات نہ مانی (صبر نہ آیا) لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محبّ دور چلا جائے تولمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی محبت کمزور ہوجاتی ہے اگر یہ خیال درست ہوتا، تو یقینا ً ہر زمانے کے لوگوں کے لئے محبت کا علاج ہوتا ہاں ہاں محب کمزور ہوجائے گا اور محبت اسی حال میں ہوگی، اسے رات دن کے گزرنے نے کمزور نہیں کیا ہوگا۔ (1) یہ محبت کرنے والا ہے، جسے شوق اور عشق لئے جاتا ہے بغیر کسی لگام اور باگ کے جو اسے کھینچے لئے جاتی ہو زیارت گاہ دور ہونے کے باوجود، وہ تیرے در پر آ پہنچا ہے اگر اس کی سواری کمزور ہوجاتی تو اس کے قدم ہی اسے لے آتے یہاں امام ابن قیم کا کلام ختم ہوا۔ [(1) امام ابن قیم کا یہ کلام ان کی ان کی کتاب ”بدائع الفوائد“ سے منقول ہے اس میں یہ شعر اس طرح درج ہے۔ بلی انہ یبلی التصبر والھوی علی حالہ لم یبلہ الملوان ہاں صبر تو کمزور ہوجاتا ہے لیکن محبت اپنے حال پر رہتی ہے، وہ رات دن کے گزرنے سے کمزور نہیں ہوتی (ازمحقق)]