سورة الصافات - آیت 87

فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو جہانوں کے رب کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ جب وہ اپنی کسی عید کے لئے باہر نکلے تو ان مشرکین کی غفلت کی بنا پر ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ آپ بھی ان کے ساتھ باہر نکلے ﴿فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ ” تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی اور کہا میں تو بیمار ہوں۔“ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے تین موقعوں کے، ایک موقع پر فرمایا : ﴿إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ ”میں بیمار ہوں“ دوسرے موقع پر فرمایا : ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا﴾ ” بلکہ بتوں کے ساتھ یہ سلوک ان کے بڑے نے کیا ہے۔“ اور تیسرے موقع پر اپنی بیوی کے بارے میں فرمایا :” یہ میری بہن ہے۔“ [صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب و اتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔۔۔، ح : -3358و صحیح مسلم، الفضائل، باب فی فضائل ابراہیم خلیل عليه السلام، ح :2371]