وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ
اور بلاشبہ یقیناً نوح نے ہمیں پکارا تو یقیناً ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اولین رسول، حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے، مگر ان کی دعوت نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا کہ لوگ اس دعوت سے دور بھاگتے رہے۔ تب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے دعا کی : ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾(نوح:71؍26) ” اے میرے رب ! زمین پر کوئی کافر بستا نہ چھوڑ“ اور فرمایا ﴿رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ﴾ (المؤمنون:23؍26)” اے میرے رب ! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد فرما۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور اپنی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ﴾ ہم پکارنے والے کی پکار اور اس کی آہ و زاری کو سنتے ہیں اور خوب جواب دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح کی دعا قبول فرمائی۔ یہ قبولیت نوح کی درخواست سے مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نوح اور آپ کے گھر والوں کو اس کرب عظیم سے نجات دی اور تمام کفار کو سیلاب میں غرق کردیا۔ آپ کی نسل اور اولاد کو تسلسل سے باقی رکھا، چنانچہ تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے آپ کو دائمی ثنائے حسن سے سرفراز فرمایا، کیونکہ آپ نے نہایت احسن طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور مخلوق کے ساتھ احسان کیا اور محسنین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے احسان کے مطابق دنیا میں ان کی ثنائے حسن کو پھیلاتا ہے۔