إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
مگر ہماری پہلی موت اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں۔
﴿أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾ ” کیا ہم (آئندہ بھی)نہیں مریں گے؟ ہاں (جو) پہلی بار مرناتھا (سو مر چکے)اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا۔“ یعنی مومن اس کافر سے نعمت کے بارے میں جو خلود جنت اور جہنم کے عذاب سے نجات کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، پوچھے گا۔ یہ استفہام اثبات اور تقریر کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ﴾ میں معمول کا حذف ہونا اور مقام لذت و سرور ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے جس کے ذکر سے انہیں لذت حاصل ہوتی ہے اور ان مسائل کے بارے میں سوال کریں گے جن میں نزاع اور اشکال واقع ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل علم کو علمی مسائل میں ایک دوسرے سے سوال کر کے تحقیق و بحث کے ذریعے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ اس لذت پر فوقیت رکھتی ہے جو دنیاوی باتوں سے حاصل ہوتی ہے، اس لئے ان کو بحث و تحقیق کے ان مسائل سے بہرہ و افر نصیب ہوگا اور جنت میں ان پر ایسے ایسے حقائق کا انکشاف ہوگا جن کی تعبیر ممکن نہیں۔