سورة يس - آیت 69

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے نہ اسے شعر سکھایا ہے اور نہ وہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو سرا سر نصیحت اور واضح قرآن کے سوا کچھ نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

مشرکین نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شاعر ہونے کا بہتان لگایا کرتے تھے نیز یہ کہ جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں وہ شاعری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاعری سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ﴾ ” یعنی آپ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ آپ شاعری کریں‘‘ یعنی آپ کا شاعر ہونا جنس محال میں سے ہے آپ تو ہدایت یافتہ ہیں جبکہ شعرا گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ لوگ ہی ان شعرا کی پیروی کرتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمام شبہات کو دور کردیا جن کا یہ گمراہ لوگ سہارا لیا کرتے ہیں، چنانچہ اس شبہے کو بھی ختم کردیا کہ آپ لکھ سکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اور آگاہ فرماتا ہے اس نے آپ کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری آپ کے شایان شان ہے ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ﴾ یعنی یہ چیز جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں ” ذکر“ ہے جس سے عقل مند لوگ تمام دینی مطالب میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں، وہ تمام دینی مطالب پر کامل ترین طریقے سے مشتمل ہے اور وہ عقلوں کو اس چیز کی یاد دہانی کرواتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اچھے کام کر کے حکم اور برے کام سے ممانعت کے طور پر انسانی فطرت میں ودیعت کردیا ہے۔ ﴿وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ﴾ ” اور واضح قرآن ہے“ یعنی جن امور کی تبیین مطلوب ہے ان سب کو بیان کرتا ہے۔ یہاں اس لیے معمول کو حذف کردیا تاکہ وہ اس حقیقت پر دلالت کرے کہ وہ پورے حق کو اور باطل کے بطلان کو اجمالی اور تفصیلی کے ذریعے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسی طرح نازل فرمایا۔