لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ
تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے، تو وہ بے خبر ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی رسالت پر قرآن حکیم کی قسم کھانے کے بعد، اس پر دلائل قائم کئے اور ذکر فرمایا کہ ان کی طرف رسول مبعوث کئے جانے کی سخت ضرورت تھی، ارشاد فرمایا : ﴿ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴾ ” تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے، لہٰذا وہ غافل ہیں۔“ اس سے مراد وہ ” امی“ عرب ہیں جن میں کتابیں نازل ہوئی تھیں نہ رسول مبعوث ہوئے تھے گمراہی ان پر چھا گئی تھی، جہالت نے ان کو اندھا کردیا تھا اور وہ اپنے اوپر اور اپنی بے وقوفی پر جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان کی طرف ایک رسول مبعوث فرمایا، تاکہ ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے جبکہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں مبتلا تھے اور تاکہ وہ ”اُمی“ عربوں اور ان کے بعد آنے والے ہر امی کو گمراہی کے انجام سے ڈرائے۔