سورة فاطر - آیت 42

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ واقعی اگر کوئی ڈرانے والا ان کے پاس آیا تو ضرور بالضرور وہ امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا تو اس نے ان کو دور بھاگنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اے اللہ کے رسول ! آپ کی تکذیب کرنے والے یہ لوگ پکی قسمیں کھاتے تھے کہ ﴿ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ﴾ ” اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوں گے۔“ یعنی وہ یہود و نصاریٰ(اہل کتاب)سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے مگر انہوں نے اپنی قسموں اور عہد کو پورا نہ کیا ﴿فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ﴾ ” چنانچہ جب ڈرانے والا ان کے پاس آگیا“ تو ان امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے بلکہ وہ اپنی گمراہی پر جمے رہے بلکہ ﴿ مَّا زَادَهُمْ ﴾ ” نہیں زیادہ کیا ان کو“ اس گمراہی نے ﴿ إِلَّا نُفُورًا ﴾ ” مگر نفرت ہی میں“ ان کے اس روئیے نے ان کی گمراہی، بغاوت اور عناد کو اور بڑھا دیا۔ ان کا یہ قسمیں اٹھانا کسی اچھے مقصد اور طلب حق کے لئے نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کو ضرور اس کی توفیق عطا کردی جاتی لیکن ان کا قسمیں اٹھانا تو مخلوق اور حق کے مقابلے میں زمین پر تکبر کرنے اور اپنی بات میں مکرو فریب کرنے سے صادر ہوا تھا۔ ان کا مقصد محض فریب کاری تھا اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ توا اہل حق اور حق کے متلاشی ہیں تو سادہ لوح لوگ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر ان کے پیچھے چل پڑے۔