سورة فاطر - آیت 8

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا (اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں؟) پس بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے، سو تیری جان ان پر حسرتوں کی وجہ سے نہ جاتی رہے۔ بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ﴾ ” کیا پس جس شخص کو مزین کر کے دکھائے جائیں“ اس کے برے اعمال، شیطان نے اس کے برے عمل کو آراستہ کر کے اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا دیا ہو ﴿فَرَآهُ حَسَنًا﴾ ” اور وہ ان کو اچھا سمجھنے لگا ہو۔“ یعنی کیا یہ اس شخص کی مانند ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے راہ راست اور دین قویم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے؟ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پہلا شخص وہ ہے جو بد عمل ہے، جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جو نیک کام کرتا ہے، جو حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿فَإِنَّ اللّٰـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ﴾ ” بلا شبہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، لہٰذا آپ اپنے آپ کو ان کے بارے میں ہلکان نہ کریں“ یعنی ان گمراہ لوگوں کے بارے میں جن کے برے اعمال ان کے لئے آراستہ ہوگئے اور شیطان نے ان کو حق سے روک دیا۔ (حسرت) یعنی گمراہ لوگوں پر حسرت و غم سے آپ اپنے آپ کو ہلاک نہ کریں۔ ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کا فرض تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ﴾ ” یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں بے شک اللہ اس سے واقف ہے۔‘‘