سورة آل عمران - آیت 75

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اہل کتاب میں سے بعض وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک خزانہ امانت رکھ دے وہ اسے تیری طرف ادا کر دے گا اور ان میں سے بعض وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک دینار امانت رکھے وہ اسے تیری طرف ادا نہیں کرے گا مگر جب تک تو اس کے اوپر کھڑا رہے، یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا ہم پر اَن پڑھوں کے بارے میں (گرفت کا) کوئی راستہ نہیں اور وہ اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اہل کتاب کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ مالوں میں ان کی دیانت اور بددیانتی کا کیا حال ہے۔ جب دین کے بارے میں ان کی خیانت، مکر اور حق کو چھپانے کا ذکر فرمایا تو اس کے بعد بتایا کہ ان میں سے خائن بھی ہیں اور دیانت دار بھی۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ ﴿مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ﴾ ’’تو اگر انہیں خزانے کا (یعنی بہت زیادہ مال کا) امین بنا دے“ ﴿يُؤَدِّهِ﴾ ” تو بھی وہ واپس کردیں“ اور اس سے کم تر تو بالا ولیٰ واپس کریں گے اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ ﴿مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ﴾ ’’اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں“ اور بڑی رقم ادا کرنے سے تو بالاولیٰ انکار کریں گے۔ انہیں خیانت اور بے وفائی کی عادت اس لئے ہوئی کہ ان کے خیال کے مطابق﴿لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ﴾ ’’ان پر جاہلوں کے حق میں کوئی گناہ نہیں“۔ یعنی اگر وہ (اُمِّیِین) ان پڑھ عربوں کے مال واپس نہ کریں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ وہ اپنی فاسد رائے کی بناء پر انہیں انتہائی حقیر سمجھتے ہیں اور خود کو انتہائی عظمت والے تصور کرتے ہیں، حالانکہ اصل میں حقیر اور ذلیل وہ خود ہیں۔ پس انہوں نے (اُمِّیِین) کے مال کی حرمت کو نہ سمجھا اور اسے انہوں نے اپنے لئے جائز قرار دے لیا۔ اس طرح وہ دو گناہوں کے مرتکب ہوئے۔ حرام کھانا اور حرام خوری کو حلال سمجھنا۔ یہ عقیدہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جو عالم حرام اشیاء کو حلال کہتا ہے، وہ گویا لوگوں کو اللہ کا حکم سناتا ہے، اپنی بات نہیں سناتا، جبکہ اللہ کا یہ حکم نہیں اور اسی کو جھوٹ کہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ ” یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں“ یہ گناہ بغیرجانے بوجھے اللہ کے بارے میں باتیں بنانے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ پھر اللہ نے ان کے غلط خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا