قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ
وہ کہیں گے تو پاک ہے، تو ہمارا دوست ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کے اکثر انھی پر ایمان رکھنے والے تھے۔
﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ﴾ ” وہ کہیں گے : تو پاک ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس چیز سے تنزیہ و تقدیس کرتے ہوئے کہ اس کا کوئی شریک یا ہمسر ہو، کہیں گے : ﴿ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم﴾ ” ہمارا سرپرست اور والی تو ہی ہے نہ کہ یہ مشرک۔“ ہم تو خود تیری سرپرستی کے محتاج اور ضرورت مند ہیں ہم دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں؟ یا یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو اپنا سرپرست اور شریک بنائیں؟ بلکہ یہ مشرکین ﴿كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ﴾ ” جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔“ شیاطین انہیں حکم دیتے تھے کہ وہ ہماری اور دیگر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کریں اور یہ ان کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کی اطاعت ہی درحقیقت ان کی عبادت تھی کیونکہ اطاعت، عبادت ہی کا دوسرا نام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی معبود بنا رکھا تھا : ﴿أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وَأَنِ اعْبُدُونِي هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾(یٰس :36؍60۔61) ”اے بنی آدم ! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔“ ﴿أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ ” ان میں سے اکثر لوگ ان پر ایمان لاتے تھے“ جنوں کو سچا جانتے اور ان کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ ایمان ایسی تصدیق کا نام ہے جو اطاعت کی موجب ہو۔