يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب! تم کیوں حق کو باطل سے خلط ملط کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو۔
﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾” اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کرتے ہو؟ اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟“ اللہ نے انہیں حق و باطل کو خلط ملط کرنے اور حق کو چھپانے پر تو بیخ کی ہے۔ کیونکہ ان دو طریقوں سے وہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ جب علماء حق و باطل میں امتیاز نہ کریں، بلکہ معاملہ مبہم رہنے دیں اور جس کو ظاہر کرنا ان کا فرض ہے، اسے چھپالیں، تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلے گا کہ حق چھپ جائے گا اور باطل عام ہوجائے گا اور جو عوام حق کے متلاشی ہوں گے، انہیں ہدایت نہیں ملے گی، حالانکہ اہل علم سے تو یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق ظاہر کریں۔ اس کا اعلان کریں، حق کو باطل سے اور پاک کو ناپاک سے الگ کرکے واضح کردیں۔ حلال و حرام اور صحیح و غلط عقائد کو الگ الگ کردیں، تاکہ ہدایت یافتہ لوگ ہدایت پر قائم رہیں اور گمراہ حق کی طرف پلٹ آئیں اور عناد کی وجہ سے انکار کرنے والوں پر اتمام حجت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ﴾ (آل عمران:3؍ 187)” جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں، تو انہوں نے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا۔‘‘