سورة سبأ - آیت 8

أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا اس نے اللہ پر ایک جھوٹ باندھا ہے، یا اسے کچھ جنون ہے ؟ بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب اور بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ شخص جو بات کہتا ہے کہ ﴿أَفْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا﴾ اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی جرأت کی ہے ﴿ أَم بِهِ جِنَّةٌ﴾ ” یا اسے جنون ہے؟“ اور یہ اس سے کوئی بعید بھی نہیں کیونکہ جنون کی کئی قسمیں ہیں۔ وہ یہ سب کچھ ظلم اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ مخلوق میں سب سے سچے اور سب سے عقل مند انسان ہیں۔ ان کا علم بس یہی ہے کہ انہوں نے آپ سے عداوت شروع کی اور بار بار عداوت کا اظہار کیا اور انہوں نے لوگوں کو آپ سے دور رکھنے کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کردیا۔ گندے ذہن کے لوگو ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹے یا پاگل ہوتے تو یہ مناسب ہی نہ تھا کہ تم ان کی بات پر دھیان دیتے یا تم ان کی دعوت کو درخور اعتنا سمجھتے کیونکہ ایک عقل مند شخص کے لائق نہیں کہ وہ ایک پاگل شخص کی طرف التفات کرے یا اس کی بات کو کوئی اہمیت دے۔ اگر تمہارے دل میں عناد نہ ہوتا اور تمہارا رویہ ظلم پر مبنی نہ ہوتا تو تم آگے بڑھ کر آپ کی دعوت کو قبول کرتے اور آپ کی آواز پر لبیک کہتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے، نشانیاں اور ڈراوے ان کے کسی کام نہیں آتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ﴾ ” بلکہ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔“ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا بات کہی تھی ﴿فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ﴾ وہ بہت بڑی بدبختی اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور منزل صواب کے ذرا بھی قریب نہیں۔ کون سی بدبختی اور گمراہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس چیز پر قادر ہونے کے انکار سے بڑھ کر ہو کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور کون سی بدبختی اور گمراہی ان کی رسولوں کی تکذیب، ان کے ساتھ استہزا اور ان کے اس دعوے سے بڑھ کر ہو کہ وہ (کافر) جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ پس وہ حق کو باطل اور باطل وضلالت کو حق اور ہدایت سمجھتے ہیں۔