سورة سبأ - آیت 6

وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا ہے، دیکھتے ہیں کہ جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہی حق ہے اور وہ اس کا راستہ دکھاتا ہے جو سب پر غالب ہے، تمام خوبیوں والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے منکرین قیامت کے انکار کا اور ان کی اس رائے کا تذکرہ فرمایا کہ جو کچھ رسول پر نازل ہوا ہے حق نہیں ہے، تو اس کے اپنے مومن بندوں کا حال بیان کیا ہے جو اہل علم ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب نازل کی ہے اور جن اخبار پر یہ کتاب مشتمل ہے، وہ برحق ہیں، یعنی حق صرف اسی کے اندر ہے اور جو چیز اس کتاب کی مخالف اور اس سے متناقض ہے وہ باطل ہے کیونکہ وہ علم کے درجہ یقین پر پہنچ چکے ہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اوامرونواہی کے ذریعے سے ﴿يَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ ” اس ہستی کی راہ دکھاتا ہے جو غالب اور لائق حمد و ثنا ہے۔“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بہت سے پہلوؤں سے اس کی دی ہوئی خبروں کی صداقت کا یقین جازم ہے۔ * اپنے علم کی جہت سے، خبر دینے والے کی داقت کا یقین ہے۔ * انہیں اس جہت سے بھی اس کی صداقت کا یقین ہے کہ یہ کتاب امور واقع اور کتب سابقہ کی موافقت کرتی ہے۔ * اس پہلو سے بھی ان کے ہاں یہ کتاب حق ہے کہ وہ اس کی دی ہوئی خبروں کے وقوع کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ * اس جہت سے بھی انہیں اس کتاب کی صداقت کا یقین ہے کہ وہ آفاق میں اور خود اپنے نفوس میں ایسی نشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ * اس جہت سے بھی انہیں اس کتاب کے حق پر مبنی ہونے کا یقین ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں ان امور کی موافقت کرتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامرو نواہی کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے راستے پر گامزن کرتے ہیں، جو بالکل سیدھا ہے اور وہ کام کی ہر اس صفت کو متضمن ہے جو تزکیہ نفس اور اجر میں اضافے کا باعث ہے، جو عامل اور اس کے علاوہ دیگر لوگوں کو صدق و اخلاص، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی اور مخلوقات پر احسان کرنے کا فائدہ پہنچاتی ہے اور ہر بری صفت سے روکتی ہے جو نفس کو گندہ کرتی ہے، اجر کا اکارت کرتی ہے، گناہ اور بوجھ کی موجب ہے مثلاً شرک، زنا، سود اور جان، مال اور عزت و ناموس پر ظلم وغیرہ۔ یہ اہل علم کی منقبت، ان کی فضیلت اور ان کی امتیازی علامت ہے نیز اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب بھی بندے کا علم زیادہ ہوگا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں گا، اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کی حکمتوں کی جتنی زیادہ معرفت رکھنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ ان اہل علم کے زمرے میں شمار ہوگا جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں پر حجت قرار دیا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مکذبین و معاندین حق کے خلاف حجت کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ اور بعض دیگر آیات میں اس کی طرف اشارہ ہے۔