مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
نہیں ہیں رسول اللہ ﴿مُحَمَّدٌ﴾ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ﴾ ” تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ۔“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا انتساب منقطع ہوگیا۔ جب یہ نفی تمام احوال میں عام ہے تو اگر لفظ کو اپنے ظاہری معنوں پر معمول کیا جائے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسب کے اعتبار سے کسی کے باپ ہیں نہ کسی منہ بولے بیٹے کے باپ ہیں جب کہ گزشتہ سطور میں یہ بات متحقق ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مومنوں کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں، اس لئے احتراز فرمایا، تاکہ یہ نوع متذکرہ صدر عموم نہی میں داخل نہ ہو، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللّٰـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ ” بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔“ یہ آپ کا مرتبہ مطاع و متبوع کا مرتبہ ہے۔ آپ پر ایمان لانے والا آپ کی پیروی کرتا ہے، آپ کی محبت کو ہر کسی کی محبت پر مقدم کرتا ہے۔ آپ اہل ایمان کے خیر خواہ ہیں، اپنی خیر خواہی اور حسن سلوک کی بناء پر گویا آپ ان کے باپ ہیں۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔“ یعنی اس کے علم نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کی ذمہ داری کطے عطا کرے؟ کون اس کے فضل و کرم کا اہل اور کون اہل نہیں ہے؟