سورة الأحزاب - آیت 13

وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے یثرب والو! تمھارے لیے ٹھہرنے کی کوئی صورت نہیں، پس لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگتا تھا، کہتے تھے ہمارے گھر تو غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں، وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ﴾ ” اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی“ یعنی منافقین کی جماعت۔ وہ جزع فزع اور قلت صبر کے بعد ایسے لوگوں میں شامل ہوگئے جن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے خود صبر کیا نہ اپنے شر کی بنا پر لوگوں کو چھوڑا، لہٰذا اس گروہ نے کہا : ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ ﴾ ” اے اہل یثرب !“ اس سے ان کی مراد اہل مدینہ تھے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کے نام کو چھوڑ کر وطن کے نام سے ان کو پکارا۔ یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں دین اور اخوت ایمانی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ جس چیز نے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کیا وہ ان کی طبعی بزدلی تھی۔ ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ﴾ ” اے اہل یثرب ! (یہاں) تمہارے لیے ٹھہرنے کا مقام نہیں۔“ یعنی اس جگہ جہاں تم مدینہ سے باہر نکلے ہو۔ ان کا محاذ مدینہ منورہ سے باہر اور خندق کے ایک طرف تھا۔ ﴿ فَارْجِعُوا ﴾ مدینے کی طرف لوٹ جاؤ، لہٰذا یہ گروہ جہاد سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ ان پر واضح ہوگیا کہ ان میں دشمن کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں اور وہ انہیں لڑائی ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ گروہ بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ تھا۔ ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ تھا جس کو بزدلی اور بھوک نے ستا رکھا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ صفوں سے کھسک کر چلے جائیں۔ انہوں نے مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کرنا شروع کردیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ ﴾ ” اور ان کی جماعت یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں۔“ یعنی ہمارے گھر خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پر حملہ نہ کردے، اس لیے ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم واپس جاکر اپنے گھروں کی حفاظت کریں، حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا ﴾ ” حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف (جنگ سے) بھاگنا چاہتے ہیں۔“ یعنی ان کا قصد فرار کے سوا کچھ نہیں، مگر انہوں نے اس بات کو فرار کے لیے وسیلہ اور عذر بنالیا۔ ان لوگوں میں ایمان بہت کم ہے اور امتحان کی سختیوں کے وقت ان کے اندر ثابت قدمی اور استقامت نہیں رہتی۔