وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔
﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ﴾ ” اور ہم نے ان میں سے بنائے“ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾ ایسے علماء جو شریعت اور ہدایت کے راستوں کا علم رکھتے تھے۔ وہ خود ہدایت یافتہ تھے اور اس ہدایت کے ذریعے سے دوسروں کی رہنمائی کرتے تھے۔ جو کتاب ان کی طرف نازل کی گئی وہ سراسر ہدایت تھی اور اس پر ایمان رکھنے والے دو اقسام میں منقسم تھے : )1( ائمہ، جو اللہ کے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ )2( جو ان ائمہ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگ انبیاء و رسل کے بعد سب سے بلند درجے پر فائز ہیں اور یہ صدیقین کا درجہ ہے۔ یہ بلند درجہ انہیں اس لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے تعلیم و تعلم، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت اور اس کے راستے میں پیش آنے والی اذیتوں پر صبر کیا اور نفوس کو معاصی اور شہوات سے روکا۔ ﴿ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾ اور وہ آیات الٰہی پر ایمان میں درجۂ یقین پر پہنچ چکے تھے۔ یقین سے مراد وہ علم تام ہے جو عمل کا موجب ہے۔ وہ درجۂ یقین پر اس لیے پہنچے کہ انہوں نے صحیح طریقے سے علم حاصل کیا اور ان دلائل کے ذریعے سے مسائل کو اخذ کیا جو یقین کا فائدہ دیتے ہیں۔ وہ مسائل سیکھتے رہے اور کثرت دلائل سے ان پر استدلال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ درجۂ یقین پر پہنچ گئے۔ پس صبر اور یقین کے ذریعے سے دین میں امامت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔