الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ
یہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، سو تو شک کرنے والوں سے نہ ہو۔
﴿فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ﴾” پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ بتایا ہے اس میں شک نہ کیجئے گا۔ اس میں اور اس کے بعد والی آیت سے ایک اہم قاعدہ و قانون ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ عقیدہ یا عمل سے تعلق رکھنے والا جو مسئلہ دلائل سے ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف ہر قول کے بارے میں یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ باطل ہے۔ اس پر جو بھی شبہ وارد کیا جائے، وہ غلط ہے۔ خواہ بندہ اس کا جواب تلاش کرسکے یا نہ کرسکے۔ شبہ کا جواب نہ دے سکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ یقینی بات قابل تنقید ہے، کیونکہ حق کے خلاف ہر بات باطل ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ﴾(یونس:10؍32)” حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں“ اس شرعی قاعدہ کی مدد سے انسان کے وہ بہت سے اشکال حل ہوجاتے ہیں جو اہل کلام اور اہل منطق کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی انسان ان کا جواب دے سکتا ہے تو وہ ایک زائد نیکی ہوگی۔ ورنہ اس کا اصل فرض یہی ہے کہ دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرے اور اس کی طرف دعوت دے۔