تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ﴾ ان کے پہلو نہایت بے قراری سے ان کے آرام دہ بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ ایسی چیز میں مصروف رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ان آرام دہ بستروں سے زیادہ لذیذ اور زیادہ محبوب ہے۔ اس سے مراد رات کے وقت نماز اور اللہ سے مناجات ہے۔ اسی لیے فرمایا : ﴿ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ ﴾ دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول اور دینی و دنیاوی نقصانات کو روکنے کے لیے اپنے رب کو پکارتے ہیں ﴿ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴾ خوف اور امید دونوں اوصاف کو یکجا کرکے، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں ان کے اعمال ٹھکرا نہ دیئے جائیں اور اس امید کے ساتھ کہ ان کے اعمال کو شرف قبولیت حاصل ہوجائے گا، نیز اس خوف سے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں اور اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ ” اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے“ خواہ وہ تھوڑا رزق ہو یا زیادہ ﴿ يُنفِقُونَ ﴾ ” خرچ کرتے ہیں۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کو کسی قید سے مقید نہیں کیا اور نہ اس شخص پر کوئی قید لگائی ہے، جس پر خرچ کیا جائے تاکہ آیت کریمہ عموم پر دلالت کرے، لہٰذا اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، کفارات، اہل و عیال اور اقارب وغیرہ پر خرچ کرنا اور نفقات مستحبہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا شامل ہے۔ مالی طور پر احسان کرنا مطلقاً نیکی ہے خواہ کسی محتاج کے ساتھ یہ احسان کیا جائے یا کسی مال دار کے ساتھ، اقارب کے ساتھ کیا جائے یا اجنبیوں کے ساتھ، مگر اس احسان کے افادے میں تفاوت کے مطابق اجر میں تفاوت ہوتا ہے۔