وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
اور اپنی چال میں میانہ روی رکھ اور اپنی آواز کچھ نیچی رکھ، بے شک سب آوازوں سے بری یقیناً گدھوں کی آواز ہے۔
﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾ ” اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر۔“ تکبر اور اتراہٹ کی چال چل نہ بناوٹ کی، بلکہ تواضع اور انکسار کے ساتھ چل۔ ﴿وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ﴾ اللہ تعالیٰ کے حضور لوگوں کے ساتھ ادب کے طور پر اپنی آواز کو دھیما رکھ۔ ﴿إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ﴾ یعنی بدترین اور قبیح ترین آواز ﴿لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ ” گدھوں کی آواز ہے۔“ اگر بہت زیادہ بلند آواز میں کوئی مصلحت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو گدھے کے ساتھ مختص نہ کرتا جس کی خساست اور کم عقلی مسلم ہے۔ یہ وصیتیں، جو جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کی ہیں، حکمت کی بڑی بڑی باتوں کی جامع ہیں اور ان باتوں کو بھی مستلزم ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ ہر وصیت کے ساتھ ایک داعیہ موجود ہے جو امر کی صورت میں اس پر عمل کی دعوت دیتا ہے اور اگر معاملہ نہی کا ہے تو اس پر عمل سے روکتا ہے اور یہ چیز ہماری اس تفسیر پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ” حکمت“ کے ضمن میں بیان کی ہے کہ یہ احکام، ان کی حکمتوں اور ان کی مناسبات کا نام ہے۔ لقمان نے اپنے بیٹے کو دین کی بنیاد یعنی توحید کا حکم دیا اور شرک سے منع کیا اور ترک شرک کے موجبات کو بیان کیا۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے موجبات کو بھی واضح کیا، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر گزار ہو، پھر واضح کیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حکم کی اطاعت کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہیں دیتے۔ بایں ہمہ ان کے ساتھ مخالفت اور عدم شفقت کا رویہ نہ رکھے، بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جب وہ اسے شرک پر مجبور کریں تو وہ ان کی اطاعت نہ کرے مگر اس صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کو ترک نہ کرے۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے مراقبے کا حکم دیا اور اسے خوف دلایا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی نیکی اور بدی اس کے حضور پیش ہوگی۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر سے روکا، اسے تواضع اور انکسار کا حکم دیا، اسے خوشی میں اترانے اور اکڑنے سے منع کیا، اسے اپنی حرکات اور آواز میں سکون اور دھیما پن اختیار کرنے کا حکم دیا اور ان کے متضاد امور سے روکا، اسے ترغیب دی کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے نیز نماز قائم کرنے اور صبر کرنے کا حکم دیا، جن کی مدد سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ﴾ (البقرۃ:2؍45) ” اور صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ “ جس شخص نے ان باتوں کی وصیت کی ہو وہ اس امر کا حق دار ہے کہ وہ حکمت و دانائی کے لیے مخصوص اور مشہور ہو، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ اس نے ان کے سامنے اس کی حکمت کا ذکر کیا جو ان کے لیے اچھا نمونہ بن سکے۔