سورة لقمان - آیت 11

هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ ہے اللہ کی مخلوق، تو تم مجھے دکھاؤ کہ ان لوگوں نے جو اس کے سوا ہیں کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ ظالم لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿هٰذَا ﴾ ” یہ“ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوق، جمادات و حیوانات اور تمام مخلوقات کے لیے رزق رسانی ﴿خَلْقُ اللّٰـهِ ﴾ ” اللہ کی تخلیق ہے“ جو وحدہ لاشریک ہے، جس کا سب اقرار کرتے ہیں حتیٰ کہ اے مشرکو ! تم بھی اقرار کرتے ہو۔ ﴿فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ﴾ ” پس مجھے دکھاؤ کہ اللہ کے سوا جو معبود (خود ساختہ شریک) ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟“ یعنی جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے، جن کو تم اپنی حاجتوں میں پکارتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی بھی کوئی تخلیق ہوجیسی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، ان کے یہ خود ساختہ معبود بھی رزق عطا کرتے ہوں جیسے اللہ تعالیٰ رزق رسانی کرتا ہے۔ اگر تمہارے خود ساختہ معبودوں نے ان میں سے کوئی کام کیا ہے تو مجھے بھی دکھاؤ تاکہ تمہارا ان کے بارے میں یہ دعویٰ ثابت ہو کہ وہ عبادت کے مستحق ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں دکھا سکتے جو ان باطل معبودوں کی تخلیق ہو کیونکہ مذکورہ تمام اشیاء کے بارے میں وہ اقرار کرچکے ہیں کہ وہ اللہ وحدہ کی تخلیق کردہ ہیں اور ان اشیاء کے علاوہ وہاں کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ لہٰذا وہ کسی ایسی چیز کو ثابت کرنے سے عاجز ہیں جو عبادت کی مستحق ہو۔ ان کا ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنا کسی علم اور بصیرت پر مبنی نہیں بلکہ جہالت اور گمراہی کی بنا پر ہے، اس لیے فرمایا : ﴿بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” بلکہ یہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں۔“ یعنی جو بالکل صاف، ظاہر اور واضح ہے کیونکہ وہ ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی نفع کی مالک ہیں نہ نقصان کی، جن کے قبضۂ قدرت میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں۔۔۔ اور ان لوگوں نے اپنے خالق اور رازق کے لیے اخلاص کو چھوڑ دیا جو تمام امور کا مالک ہے۔