سورة الروم - آیت 58

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَلَئِن جِئْتَهُم بِآيَةٍ لَّيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثال بیان کی ہے اور یقیناً اگر تو ان کے پاس کوئی نشانی لائے تو یقیناً وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ضرور ہی کہیں گے کہ تم نہیں ہو مگر جھوٹے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَلَقَدْ ضَرَبْنَا﴾ ” اور ہم نے بیان کی“ اپنی عنایت، رحمت، لطف و کرم اور حسن تعلیم کی بنا پر ﴿ لِلنَّاسِ فِي هٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ﴾ ”لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال“ جس سے حقائق واضح ہوتے ہیں، تمام امور کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حجت تمام ہوتی ہے۔ یہ اصول ان تمام مثالوں میں عام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے امور معقولہ کو امور محسوسہ کے قریب لانے کے لیے بیان کیا ہے۔ ان امور کے بارے میں جو ابھی واقع ہوں گے خبر دینے اور ان کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ضرب الامثال کا اسلوب بہت اہم ہے حتیٰ کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ خبر واقع ہوچکی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے روز مجرموں کی حالت کیا ہوگی۔ وہ شدت غم میں مبتلا ہوں گے اور ان سے کسی قسم کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ظالم کفار واضح حق کے بارے میں عناد رکھنے سے باز نہ آئے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَئِن جِئْتَهُم بِآيَةٍ ﴾ ”اور اگر آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آئیں“ جو آپ کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی ہو۔ ﴿ لَّيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ﴾ ” تو کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم تو جعل سازی کرتے ہو۔“ یعنی وہ حق کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ باطل ہے۔ یہ ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت کے باعث تھا نیز اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ اپنی جہالت میں دور تک نکل گئے۔