مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
ان لوگوں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کئی گروہ ہوگئے، ہر گروہ اسی پر جو ان کے پاس ہے، خوش ہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کی حالت کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ﴾ ” جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا“ حالانکہ دین ایک ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنا اور ان مشرکین نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان میں سے کچھ پتھروں اور بتوں کی عبادت کرنے لگے، کچھ سورج اور چاند کو پوجنے لگے، ان میں سے کچھ نے اولیاء و صالحین کی عبادت کو وتیرہ بنالیا اور ان میں سے کچھ یہودی اور کچھ نصرانی ہیں اس لیے فرمایا : ﴿ وَكَانُوا شِيَعًا﴾ ” اور وہ فرقے فرقے ہوگئے۔“ یعنی ہر فرقے نے اپنے باطل نظریات کی نصرت و تائید کے لیے تعصب پر مبنی اپنا الگ گروہ بنالیا اور دوسروں سے دشمنی اور محاربت شروع کردی۔ ﴿ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ﴾ ” سب فرقے اس سے جو ان کے پاس ہے“ انبیاء و مرسلین کے علوم کے مخالفت کرنے والے علوم میں سے وہ ﴿فَرِحُونَ ﴾ ان پر بہت خوش ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ باطل پر ہیں۔ یہ آیت کریمہ تشتت اور تفرقہ بازی کے ضمن میں مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے کہ ہر فریق جو اپنے حق اور باطل نظریات کے بارے میں تعصب رکھتا ہے وہ تفرقہ بازی میں مشرکین سے مشابہت رکھتا ہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دین ایک ہے، رسول ایک ہے اور معبود ایک ہے اور اکثر دینی امور کے بارے میں اہل علم اور ائمہ کرام کا اجماع واقع ہوچکا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت مربوط طریقے سے اخوت ایمانی قائم کردی ہے تب کیا بات ہے کہ ان تمام متفقہ اصولوں اور اخوت ایمانی کو باطل قرار دے کر انتہائی خفیف فروعی اور اختلافی مسائل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان افتراق اور دشمنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ سمجھتے ہیں۔ کیا یہ صورتحال شیطان کی طرف سے بڑا فساد اور اس کا سب سے بڑا مقصد نہیں جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو اپنے فریب میں مبتلا کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنا، ان کے درمیان ان اختلافات کا خاتمہ کرنا جو باطل اصولوں پر مبنی ہیں، اللہ کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور افضل ترین عمل نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انابت کا حکم دیا ہے، اور یہ انابت، انابت اختیاری ہے جو عسرت و خوشحالی، فراخی اور تنگی ہر حال میں اختیار کی جاتی ہے پھر انابت اضطراری کا ذکر کیا جو انسان میں صرف اس وقت ہوتی ہے جب وہ تنگی اور تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب تنگی زائل ہوجاتی ہے تو وہ انابت کو بھی پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے، لہٰذا اس قسم کی انابت فائدہ مند نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :