وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی شان اسی کی ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ﴾ ” اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ“ یعنی تمام مخلوق کی موت کے بعد ان کی تخلیق کا اعادہ کرنا ﴿أَهْوَنُ عَلَيْهِ ﴾ ” اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔“ انہیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے۔ یہ ذہن اور عقل کی نسبت سے ہے کہ جب وہ تخلیق کی ابتدا کرنے پر قادر ہے، جس کا تمہیں خود بھی اقرار ہے، تو تخلیق کے اعادہ پر قدرت آسان تر اور زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد، جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں، اہل ایمان نصیحت پکڑتے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگ اس سے بصیرت حاصل کرتے ہیں۔۔۔ بہت عظیم معاملے اور بہت بڑے مقصد کا تذکرہ کیا : ﴿وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے۔“ اس سے مراد ہر صفت کمال ہے اور اس کمال سے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے دلوں میں محبت، انابت کامل، ذکر جلیل اور ان کی عبادت میں کمال مراد ہے۔ یہاں (اَلْمَثَلُ الْاَعْلٰی) سے مراد اس کے بلند ترین وصف اور اس پر مترتب ہونے والے آثار ہیں۔ اس لیے اہل علم اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں قیاس اولیٰ استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ مخلوقات کی ہر صفت کمال سے متصف ہونے کا، ان کو پیدا کرنے والا اللہ زیادہ مستحق ہے، اسی طرح سے کہ کوئی اس کا اس صفت میں شریک نہیں ہوتا۔ ہر وہ نقص، جس سے مخلوق اپنے آپ کو بچاتی ہے خالق کا اس وصف سے منزہ ہونا اولیٰ و انسب ہے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ وہ غلبۂ کامل اور بے پایاں حکمت کا مالک ہے اس نے اپنے غلبے کی بنا پر مخلوقات کو وجود بخشا اور مامورات کو ظاہر کیا اور اپنی حکمت کی بنا پر اپنی بنائی چیزوں کو مہارت سے بنایا، ان کے اندر اپنی شرع کو بہترین طریقے سے مشروع کیا۔