وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے تمھارا دن اور رات میں سونا اور تمھارا اس کے فضل سے (حصہ) تلاش کرنا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں۔
یعنی آیات و معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے تدبر و تفکر کے ساتھ سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ یہ آیت کریمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (القصص : 28؍73) ” اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات کے وقت سکون حاصل کرو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔“ نیز یہ آیت کریمہ اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ کسی وقت سکون حاصل کریں تاکہ وہ آرام کرسکیں اور کسی وقت اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لیے زمین پر پھیل جائیں اور یہ مصالح اس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک کہ رات اور دن ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے نہ آئیں۔ جس اکیلی ہستی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگایا ہے وہی اکیلی ہستی عبادت کی مستحق ہے۔