سورة آل عمران - آیت 50

وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات سے ہے اور تاکہ میں تمھارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ﴾ ” اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے“ یعنی وہ ویسی ہی تعلیمات لے کر آیا ہوں جیسی موسیٰ علیہ السلام لائے تھے اور جو تورات میں موجود تھیں۔ سچے آدمی کی علامت یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی باتیں دوسرے سچے افراد کے بیانات کے مطابق ہوں۔ وہ سچی خبریں دے اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس کی باتوں میں تناقض اور اختلاف نہ ہو۔ جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ بالخصوص جو سب سے بڑا دعویٰ یعنی نبوت کا دعویٰ کرے۔ اگر اس کا دعویٰ جھوٹ ہے تو اس کا جھوٹ ہر کسی کے سامنے ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اس کی باتوں میں تناقض ہوتا ہے۔ اس کی باتیں سچے لوگوں کی باتوں کے خلاف اور جھوٹے لوگوں کی باتوں سے مشابہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ اقوام میں یہی طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ کیونکہ نبوت کے دعویٰ میں سچے اور جھوٹے میں ہرگز اشتباہ نہیں ہوتا۔ البتہ بعض چھوٹے موٹے جزوی معاملات میں سچا اور جھوٹا ایک دوسرے سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔ نبوت پر تو مخلوق کی ہدایت و ضلالت اور نجات و ہلاکت کا دار و مدار ہے۔ اس کا سچا دعویٰ کرنے والا کامل ترین انسان ہی ہوسکتا ہے اور اس کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا سب سے حقیر، سب سے بڑھ کر جھوٹا اور سب سے زیادہ ظالم ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہے کہ ان دونوں میں ایسے واضح فرق موجود ہوں جنہیں عقل رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام نے بتایا کہ انجیل کی شریعت میں آسانی اور نرمی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ﴾” اور میں اس لئے آیا ہوں تاکہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کردی گئی ہیں“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے تو رات کے اکثر احکام منسوخ نہیں کئے، بلکہ ان کی تکمیل کی ہے اور انہیں برقرار رکھا ہے۔ ﴿وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ﴾” اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں سچا ہوں اور میری پیروی واجب ہے۔ اس سے مراد وہی معجزات ہیں، جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” تم اللہ سے ڈرو“ اس کے احکام کی تعمیل کرو، اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے پرہیز کرو، اور میری اطاعت کرو۔ کیونکہ رسول کی اطاعت اصل میں اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔