وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بلاشبہ اللہ یقیناً نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا﴾ ” اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی۔“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرنے کی بھرپور کوشش کی ﴿لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ ” ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔“ یعنی ہم ان کو ان راستوں پر گامزن کردیتے ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکوکار ہیں۔ ﴿وَإِنَّ اللّٰـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور ہدایت کے ذریعے سے نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح بات کی موافقت کرنے کے حق دار اہل جہاد ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی احسن طریقے سے تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کے اسباب کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی شرعی علم کی طلب میں جدوجہد کرتا ہے اسے اپنے مطلوب و مقصود اور ان امور الٰہیہ کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی معاونت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے جو اس کے مدارک اجتہاد سے باہر ہیں اور امور علم اس کے لیے آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ شرعی علم طلب کرنا جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ یہ جہاد کی دو اقسام میں سے ایک ہے جسے صرف خاص لوگ ہی قائم کرتے ہیں۔۔۔ اور وہ ہے منافقین و کفر کے خلاف قولی اور لسانی جہاد۔ امور دین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا اور مخالفین حق، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، کے اعتراضات کا جواب دینا بھی جہاد ہے۔